پاکستان کے ضلع بہاول نگر میں پنجاب پولیس کے افسران اور اہلکاروں کی با وردی فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں پٹائی اور اعلیٰ درجے کے تشدد کے بعد صورتحال سنھبلنے کے بجائے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین ہوتی جارہی ہے، نجی میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسر شب اور ایکس کی بندش نے افواؤں کا دروازہ کھول دیا ہے، پاکستان میں بیروزگاری کی بلند ترین سطح کے باوجود پنجاب پولیس کے کم ازکم دو اہلکاروں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیدیا ہے جنکی سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ اہلکار اپنی پولیس وردی کو نذر آتش کررہے ہیں، سکیورٹی اُمور کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک سول وار کی طرف بڑھ رہا ہے اور اب فوج اور پولیس کے درمیان خلیج پانٹے کا عمل آسان نہیں ہوگا، اس تنازعہ کا سیاسی ماحول پر بھی اثر پرے گا، مذہبی قوتوں کی نمائندہ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے تو فوج ہی نہیں جنرلز کو بھی للکارہ ہے، جس سمت کا پاکستان کے حالات کو لے جانے کی کوشش ہورہی ہے وہ مقتدر لوگوں کی نیتوں پر بھی سوال اُٹھا رہا ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ انّا اور طاقت کے ذریعے وطن کے ہر ادارے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش ہے لیکن اس کھیل میں عوام شامل نہیں ہیں، عوام کے ووٹوں کی بےقیری ہوئی عوام نے جواب نہیں دیا، عوام پر ایسی حکومت مسلط کردی گئی جسے انھوں نے منتخب نہیں کیا پھر بھی عوام خاموش رہی، عدلیہ کے ججز کو دھمکیوں اور زور زبردستی کے ذریعے فیصلے لئے گئے اور ججز نے احتجاجی خط لکھا مگر عوام خاموش رہی، اسکی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی عوام پولیس اور نظام انصاف سے شدید ناراض ہے، اس لئے کہ جب عوام اپنے حق کیلئے باہر نکلتی ہے تو یہی پولیس اور نظام انصاف عوام کو تحفظ فراہم نہیں کرتا، پولیس سیاسی کارکنوں کو دہشت گرد بناکر پرچہ کاٹتے ہیں اور عدالت کسی کے کہنے پر اسکو ضمانت نہیں دیتا جبکہ جج سمجھ رہا ہوتا کہ ملزم سیاسی کارکن ہے پولیس نے زیادتی کی ہے مگر ججز صاحب پولیس کی سرزنش نہیں کرتے بلکہ زیادہ تر پولیس کو جسمانی ریمانڈ دے دیتے ہیں۔
پاکستان کے عوام جن اداروں سے براہ راست تنگ آئے ہوئے ہیں، اُن میں سرفہرست پولیس اور نظام انصاف سے مربوط افراد اور ادارے ہیں، پنجاب پولیس کا اپریل 2022ء کے بعد جو کردار رہا ہے وہ ناقابل معافی ہے مگر نظام انصاف نے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور وہ کچھ کیا جو اوپر والوں کے احکامات تھے تو آج ججز اور پنجاب پولیس کا رونا حق بجانب کیسے سمجھیں، گزشتہ روز صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولنگر میں پولیس اور پاکستان آرمی کے اہلکاروں کے درمیان جھگڑے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے تاہم پنجاب پولیس کے وضاحتی بیان کے بعد واقعے سے متعلق سوالات کم ہونے کے بجائے مزید پیدا ہوگئے ہیں، بہاولنگر میں گزشتہ ہفتے پیش آئے واقعے کے بارے پاکستان فوج اور پولیس کے افسران نجی محفلوں اور میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اگرچہ محتاط ہیں لیکن وہ اپنے اپنے محکموں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں، واضح رہے کہ پولیس اور فوج کے درمیان تنازع کا آغاز گزشتہ ہفتے ایک حاضر سروس فوجی اہلکار کے گھر پر چھاپے اور گرفتاری سے شروع ہوا تھا بعدازاں پولیس اہلکاروں پر تھانے میں گھس کر فوجی اہلکاروں کی جانب سے مبینہ تشدد اور اس کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد اس پر تبصرے ہونا شروع ہوئے تھے، سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کے بعد پولیس اور فوج کے بڑوں نے دس اپریل کو ایک ساتھ بیٹھ کر غیر تحریری صلح کر لی تھی، پولیس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق بہاولنگر میں پیش آنے والے معمولی واقعے کو سوشل میڈیا پر سیاق و سباق سے ہٹ کر اور بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔
امریکی نیوز نیٹ ورک کی ایک تفتیشی رپورٹ کے مطابق مطابق فوج کے حاضر سروس افسران نے اپنے ادارے کے اہلکاروں کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر بہاولنگر کے ایس ایچ او کے علم میں تھا کہ وہ جہاں چھاپہ مار رہا ہے اور جسے گرفتار کر رہا ہے، وہ آرمی کا حاضر سروس اہلکار ہے تو پھر اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا جیسا اہلکار کی گرفتاری کے بعد ہوا، اسی رپورٹ میں اگے چل کر ماہر قانون شہروز شبیر چوہان ایڈووکیٹ کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ تعزیراتِ پاکستان فوج کے افسران و اہلکاروں اور غیر ملکی سفارتی عملے پر لاگو نہیں ہوتا، ان کے بقول انہیں نہ تو تعزیرات پاکستان کے تحت گرفتار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سزا ہوسکتی ہے، شہروز چوہان کے مطابق فوجی افسران کے خلاف سول کورٹ یا ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا جا سکتا ہے، شہروز کہتے ہیں کہ وکلا بھی بہاولنگر واقعے کو قانونی پہلوؤں سے دیکھ رہے ہیں، اگر دونوں ادارے تحقیقات کریں تو شاید دونوں اداروں کے اہلکار قصوروار پائیں اس لئے لگتا ہے کہ دونوں اداروں نے صلح صفائی کو ہی غنیمت جانا ہے۔