بیجنگ میں قائم ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) کے سینئر اہلکار اور پاکستان کے سابق ڈپٹی گورنر مرتضیٰ سید نے بتایا ہے پاکستان چین کے مقابلے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور پیرس کلب جیسے کثیر الجہتی ترقیاتی بینکوں کا زیادہ مقروض ہے، قرضوں کے اس طرح کے دباؤ کا سامنا کرنے والے دوسرے ممالک سے پاکستان کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے دلیل دی کہ ہم اس کشتی میں سوار نہیں ہیں، جس میں دیگر ممالک سوار ہیں اور جن کا چین اہم قرض دہندہ ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق قائم مقام گورنر مرتضیٰ سید نے ایک ٹویٹ میں آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ (ایس ایل اے) کے لئے پاکستان کو اپنے ترقیاتی اور دو طرفہ شراکت داروں سے مالیاتی یقین دہانیوں کی ضرورت ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ 7 ارب ڈالر کا معاہدہ پاکستان کو انتہائی ضروری ریلیف فراہم کرے گا، یہ جشن منانے کی بات نہیں ہے، معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل اس سے حل نہیں ہوسکتے، ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا، وفاقی اخراجات اور سرکاری و سیاسی اشرافیہ کیلئے مختص مراعات کو فی الفور ختم کرنا ہوگا، مرتضیٰ سید کا کہنا ہے کہ اسٹاف لیول سطح پر آئی ایم ایف اور پاکستان کے معاشی مینیجرز کے درمیان اتفاق رائے پر مبنی معاہدہ نامکمل ہے کیونکہ پاکستان کو اپنے تمام بڑے بیرونی قرض دہندگان بشمول کثیرالجہتی ترقیاتی بینک، بانڈ ہولڈرز، پیرس کلب اور چین سے قرضوں میں ریلیف کی ضرورت ہے۔
چین کے ساتھ پاکستان کا ایکسپوژر نسبتاً کم ہے، اس لئے یہ ہمارے قرض کے مسائل خود حل نہیں کر سکتا، چین بڑی تصویر کا صرف ایک حصہ ہے، واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیائی امور کے اسکالر مائیکل کوگل مین نے اس رائے کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے گذشتہ سال کے دوران مشکل سے حاصل کردہ میکرو اکنامک استحکام کی تعریف کی ہے، انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اسلام آباد کے لئے جمعہ کا آغاز سپریم کورٹ کی طرف سے ایک دھچکے سے ہوا اور ایک اہم عطیہ دہندہ کی طرف سے فراہم کردہ فروغ کے ساتھ ختم ہوا، انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اکبر ایس زیدی نے لکھا کہ آئی ایم ایف پیکج جشن منانے کے لئے نہیں ہے کیونکہ یہ ہماری ناکامیوں کا اعتراف ہے، ہم بار بار آئی ایم ایف کے پاس جا کر مسلسل ناکام ہو رہے ہیں۔