تحریر: محمد رضا سید
قیام پاکستان کے چند سالوں بعد ہی اس خطے زمین پر روایتی جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں نے سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ملکر ملکی سیاست سے عوام کو باہر نکال دیا اور گروہی خواہشات کو قومی خواہشات پر سبقت ملنا شروع ہوگئی، یہ سلسلہ بنگلہ دیش کے قیام تک جاری رہا، ذوالفقار علی بھٹو کے دور کو عوام کی بالادستی کا دور کہا جاتا ہے مگر تاریخ اور واقعات کے تسلسل کا جائزہ لیں تو یہ دور بھی ایک شخص کی خواہشات کے تابع نظر آتا ہے البتہ بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ غلط تھا لیکن اس کے پیچھے بھی گروہی خواہشات تھیں، وقت گزرتا رہا اور پاکستان ذاتی اور گروہی سیاست کی دلدل میں ڈھنستا چلا گیا اور آج اس حالت پر پہنچ گیا کہ دنیا ہمیں منہ لگانے سے گزیز کررہی ہے، ہندوستان میں 90 کی دہائی تک چند قوتیں تقسیم ہند کو تسلیم نہیں کرتیں تھیں اور اکھنڈ بھارت کے نظریہ کا پرچار کرتی نظر آتیں تھیں اب وہ بھی خاموش ہوگئیں ہیں کیونکہ پاکستان جو کئی دہائیوں تک انڈیا سے آگے چل رہا تھا وہ اب انڈیا سے بہت پیچھے چلا گیا ہے۔
پاکستان کی پوری تاریخ کا خلاصہ اس المیے میں پنہا ہے کہ یہاں ذاتی اور گروہی خواہشات کو قوم کی اجتماعی خواہشات پر ترجیح دی گئی ہے، پاکستان کے اکثر سیاسی فیصلے گروہی سیاست کے پیش نظر رکھتے ہوئے کئے گئے ہیں، حالیہ چند ہفتوں میں 26 ویں آئینی ترامیم کے حوالے سے ریاستی اداروں اور سیاسی میدان میں جو کھیل کھیلا جارہا ہے، اسکا عمیق جائزہ لیں تو یہ بھی ذاتی اور گروہی سیاست کی ایک نظیر بنتی دکھائی دے رہی ہے، پاکستان میں عجیب تماشہ لگا ہوا ہے آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس بلایا جاتا ہے اور بار بار ملتوی کردیا جاتا ہے، گروہی مفادات کیلئے قومی خزانے کا اتبا بڑا نقصان کیا جارہا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ، پاکستان کی جو سیاسی جماعتیں اقتدار میں ہیں اُنھوں نے سیاسی آزادیوں کو ماشل لاء ادوار سے زیادہ پابند کردیا ہے، پاکستانی عوام تو سوشل میڈیا پر بھی اظہار خیال سے خوف کھانے لگے ہیں، چند فوجی جنرلوں کی سرپرستی میں جعل سازی کے ذریعے قائم کردہ سیاسی نظام نے ایسے قوانین بنائے ہیں جو اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرچکے ہیں اور خصوصی عدالتیں سوشل میڈیا پر خیالات کے اظہار پر سزائے موت دے رہی ہیں، پچھلے دنوں گجر خان کی ایک خصوصی عدالت نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کی بنیاد پر ملزم کو عمر قید کیساتھ پھانسی دینے کی سزا سنائی ہے، غالب امکان ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اس سزا کو کالعدم قرار دے دیں گی لیکن خوف کی فضاء پیدا کی جارہی ہے اور یہ جانتے بوجھتے ہورہا ہے مقصد گروہی مفادات ہیں، طاقتور گروہ ہر اختلافی آواز کو دبانا چاہتا ہے، 26 ویں آئینی ترمیم کا مقصد بھی یہی ہے، اس آئینی ترمیم کے ابتدائی مسودے میں فوجی عدالتوں کے دائرہ کار کو سویلینز تک بڑھانے کا تصور پیش کیا گیا تھامگر حزب اختلاف نے اس تجویز کو یکسر مسترد کردیا، جس کے بعد اس گھناونی سازش کو آئینی مسودے سے خارج کردیا گیا۔
حکمراں اتحاد کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے مطلوبہ تعداد میسر نہیں ہے، انہیں پی ٹی آئی کی حمایت درکار ہے جبکہ پی ٹی آئی نے 26 ویں آئینی ترمیم کو مسترد کردیا ہے، بلاول بھٹو زرداری نے حیدرآباد میں جلسے میں تقریرکے دوران جوش خطابت میں 26 آئینی ترمیم کو جبراً منظور کرانے کی بات کرکے پیپلزپارٹی کی دہائیوں پر محیط جمہوری جدو جہد کے اُجلے لبادے پر انمٹ دھبہ لگادیا ہے، سابق حکومت کے مشیر بیرسٹرشہراد اکبر کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو کو جن عسکری قوتوں نے وزارت اعظمیٰ کا جھانسہ دیا ہے وہ بلاول کے پیٹ پیچھے اُنکا مذاق اُڑاتے ہیں ، نہ جانے بلاول بھٹو کو وزیراعظم بننے کا سوق کیوں ہوگیا ہے اور کس نے اِن کے ذہن میں یہ بات ڈالی ہے کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم بن سکتے ہیں البتہ موجودہ جعلی سیاسی نظام کو تعمیر کرنے والی قوتیں اُن کا وزیراعظم بننا قبول کرلیں گی ہرگز نہیں اُن سے سنگین مذاق کیا جارہا ہے، انہیں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے ، اقتدار کانٹوں کی سیج ہے وہ پہلے سندھ پر توجہ دیں جو دنیا کا رہنے کے حوالے سے پسماندہ افریقی ملکوں سے بھی بدتر ہوچکا ہے۔
حب الوطنی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ متازع 26 ویں آئینی ترمیم کیلئے ہفتوں پر محیط تگ و دو کے بجائے ملک میں غربت کم کرنے اور مہنگائی کو قابومیں لانے کے منصوبے بنائے جائیں ، بلاول بھٹو صاحب آپ کے سندھ میں لوگ نان شبینہ سے محروم رات گزار رہے ہیں، آپ کی جس صوبے میں حکومت ہے وہاں لوگ خودکشیاں کررہے ہیں، خود کشی کی شرح پاکستان کے بقیہ صوبوں سے زیادہ ہے، سندھ میں ایک ڈاکٹر کو لوگوں نے مبینہ طور پر توہین کے الزام میں آگ لگاکر ہلاک کردیا ، بین الشہر شاہراہوں پر ڈاکو راج ہے لہذا سندھ میں قانون کے نفاذ مقدم ضرورت ہونی چاہیے ۔