پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پیر کو کہا ہے کہ امریکہ اگر ایران سے گیس نہ لینے کا کہہ رہا ہے تو پھر اسے پاکستان کو اس کا متبادل بھی بتانا چاہیئے، اسلام آباد میں اپنے چیمبر میں میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ کہتا ہے کہ ایران سے گیس نہ لیں اور اس کی پاداش میں ہم پر بھی پابندیاں لگ جائیں گے تو اسے متبادل بھی بتانا چاہیئے، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ امریکہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی حمایت نہیں کرتا اور ایران کے ساتھ بزنس کرنے سے پاکستان کو امریکی پابندیوں کی زد میں آنے کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے، میتھیو ملر نے 26 مارچ کو واشنگٹن میں نیوز بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ میں کسی بھی قسم کی ممکنہ پابندیوں کے اقدامات کا جائزہ نہیں لوں گا، جیسا کہ میں یہاں بریفنگ کے دوران پابندیوں سے متعلق کسی بھی اقدام کا جائزہ نہیں لیتا لیکن ہم ہمیشہ سب کو مشورہ دیتے ہیں کہ ایران کے ساتھ بزنس کرنے سے ہماری پابندیوں کے زد میں آنے کا خطرہ ہے اور ہم ہر ایک کو مشورہ دیں گے کہ وہ اس پر بہت احتیاط سے غور کریں اور جیسا کہ اسسٹنٹ سیکریٹری نے پچھلے ہفتے واضح کیا تھا کہ ہم اس پائپ لائن منصوبے کو آگے بڑھانے کی حمایت نہیں کرتے۔
اس بارے میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے یکم اپریل کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ ایران سے گیس نہ لینے کا متبادل بتائے، ہم عالمی مارکیٹ سے مہنگی ایل پی جی خریدتے ہیں، اگر کوئی ہمسایہ اچھے نرخ پر گیس دیتا ہے تو ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے پڑوسی سے سستی گیس خریدیں، انہوں نے مزید کہا کہ یہ پابندیاں لگاتے ہیں اور اس کا حل نہیں بتاتے کہ ہم اس کا کیا متبادل کریں، امریکہ کو ہماری معاشی صورت حال سمجھنی چاہیئے، دوسری جانب جنوبی ایشیا کے لئے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو نے بھی 27 مارچ کو واشنگٹن ڈی سی میں وزارت خارجہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان اور ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے فروری میں ایران پاکستان (آئی پی) گیس پائپ لائن کے 80 کلومیٹر طویل حصے کی تعمیر کی منظوری کے بعد ان کا ملک اس منصوبے کی تعمیر روکنے کی کوشش کر رہا ہے، وفاقی وزیر خواجہ آصف کے شاکی لہجے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پر ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر کے حوالے سے شدید دباؤ ہے لیکن اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ پاکستان امریکی دباؤ قبول کرئے گا یا نہیں مگر موجودہ حکومت کا معذرت خوانہ رویہ یہ بتاتا ہے کہ ایران سے گیس حاصل کرنے کا منصوبہ معطل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
1 تبصرہ
درپوک حکومت سے اسی بات کی اُمید کی جاسکتی ہے، یہ پاکستانی عوام کا نہیں سوچتے آئی ایم ایف کے قرضے کا سوچتے ہیں