تحریر: محمد رضا سید
پاکستان کے خلاف ہندوستان کی کثیرالجہتی جنگی حکمتِ عملی کا ایک اہم پہلو پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچانا ہے، اس مقصد کیلئے ہندوستان نے کئی کامیاب اقدامات کیے ہیں، ہندوستانی حکومت نے واشنگٹن سے درخواست کی ہے کہ وہ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو دی جانے والی مالی امداد کو انسدادِ دہشت گردی سے مؤثر اقدامات سے مشروط کرے، بدقسمتی سے پاکستان کی حکومت اور متعلقہ ادارے اس جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہے، 4 مئی 2025 کو ہندوستان نے اٹلی سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان کو دی جانے والی مالی امداد میں کمی کرے، یاد رہے کہ نئی دہلی نے پہلگام حملے کے بعد پاکستان کے خلاف تعزیری اقدامات میں مسلسل توسیع کی ہےجبکہ پاکستان ایسے اقدامات نہیں کر رہا جو ہندوستان کی معاشی اور آبی جارحیت کو مؤثر طور پر روک سکیں، افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان نے اب تک اہم عالمی دارالحکومتوں میں اعلیٰ سطحی سفارتی وفود روانہ نہیں کیےجبکہ ہندوستان نے یورپی یونین، ماسکو، اور واشنگٹن میں اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں، پاکستان کو اپنی جنگ خود لڑنی پڑے گی، چین ہماری مدد ضرور کر رہا ہے مگر یہ توقع کرنا کہ وہ اس وقت ہندوستان پر فوجی دباؤ ڈالے گاغیر حقیقت پسندانہ ہے، اب تصور کیجیے کہ اگر ہندوستان اپنی حکمتِ عملی کے تحت عالمی مالیاتی اداروں اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے پاکستان پر پابندی لگوانے کیلئےاپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوجاتا ہے ، تو پاکستان کی معاشی صورتحال کس نہج پر پہنچ سکتی ہے؟ ہندوستان کے پالیسی ساز اس سوچ کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی ناکہ بندی یقینی بنائی جائے یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی رہنما بارہا یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ پاکستان چار دن سے زیادہ جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، پاکستانی قیادت کو چاہیے کہ اس سنگین صورت حال کو سنجیدگی سے لے۔
میلان میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے بورڈ آف گورنرز کی 58ویں سالانہ میٹنگ کے موقع پر بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے اپنے اطالوی ہم منصب گیان کارلو جیورجیٹی سے ملاقات میں پاکستان کی مالی امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا، ہندوستانی وزیر خزانہ 4 سے 7 مئی تک ایشیائی ترقیاتی بینک کی سالانہ میٹنگ میں ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ شریک ہیں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے غیر رسمی ملاقاتیں بھی کر رہی ہیں جن کا مرکزی نکتہ پاکستان کو مالی امداد کی فراہمی روکنا یا اس میں کمی لانا ہے، ہندوستان نے آئی ایم ایف سے بھی پاکستان کیلئے قرضوں کی منظوری پر نظرثانی کی باضابطہ درخواست کی ہے، یہ سب ہندوستان کی پاکستان کے خلاف معاشی جارحیت کی واضح مثالیں ہیں مگر پاکستان کے مقتدر حلقے اس صورتحال کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے، پاکستان میں ایسے اقدامات پر زور دیا جا رہا ہے جن میں نمائشی پہلو زیادہ اور اثر کم ہے اور رابطے ان ملکوں سے کیے جارہے ہیں جن کا جنوبی ایشیاء کی سیاست سے کوئی خاص تعلق نہیں البتہ حالیہ دنوں میں ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی اپنے شیڈول دورہ پر اسلام آباد پہنچے جہاں انہوں نے صدر آصف زرداری اور وزیر خارجہ سے ملاقات کی، ان ملاقاتوں میں پاکستان اورہندوستان کے درمیان حالیہ کشیدگی پر ضرور بات ہوئی ہوگی، ہندوستان کے زیرِ قبضہ کشمیر میں ایران کا ایک اہم سیاسی کردار موجود ہے، کارگل جنگ کے دوران ایران نے مقامی شیعہ آبادی کو کسی بھی طرح کے مثبت یا منفی ردعمل سے روکا تھا، یہ یاد رکھنا چاہیئےکہ کشمیر کے بعض اضلاع میں شیعہ آبادی 40 فیصد سے زیادہ ہے اور ایران نہیں چاہے گا کہ یہ خطہ جنگ کا میدان بنے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ہندوستانی وزیر خارجہ جے شنکر اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے علیحدہ علیحدہ ٹیلی فونک رابطہ کیا اور دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ تحمل سے کام لیں، تحقیقات میں تعاون کریں اور کشیدگی کم کرنے کے لیے رابطے بحال کریں، تاہم، ہندوستان نے رسمی طور پر امریکی مشورے پر غور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے مگر عملی طور پر کوئی مؤثر رابطہ نہیں کیا، جو اس کی بدنیتی کا مظہر ہے، پہلگام واقعے پر امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کا ردعمل ہندوستان کیلئے مایوس کن رہا کیونکہ انہوں نے ہندوستان کی پیدا کردہ کشیدگی کو پندرہ سو سالہ تاریخ سے جوڑ دیا، اگرچہ امریکہ دونوں ملکوں کے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر پر تشویش ضرور رکھتا ہے۔
موڈی کی رپورٹ کے مطابق پہلگام حملے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی نے پاکستان کے معاشی بحالی کے امکانات اور آئی ایم ایف کے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، موڈی نے خبردار کیا ہے کہ اس صورتحال میں پاکستان کی 350 ارب ڈالر کی معیشت کو ہندوستان کی نسبت زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے، کشیدگی بڑھنے سے پاکستان کی اقتصادی ترقی متاثر ہوگی، مالیاتی استحکام برقرار رکھنا مشکل ہوگا اور زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی دباؤ پڑے گا، اس کے برعکس ہندوستان کی معیشت پر اس کشیدگی کے اثرات نسبتاً محدود ہوں گے، اگرچہ دفاعی اخراجات میں اضافہ نئی دہلی کی مالی طاقت پر کچھ اثر ڈال سکتا ہے۔
پاکستان کو معاشی نقصان پہنچانے کی ہندوستانی پالیسی کے تحت 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر کے جموں و کشمیر میں چار بڑے پن بجلی منصوبے پکل دل (1000 میگاواٹ)، کیرو (624 میگاواٹ)، کوار (540 میگاواٹ)، اور رتلے (850 میگاواٹ) پر کام تیز کر دیا گیا ہے، یہ تمام منصوبے چناب دریا پر واقع ہیں جو معاہدے کے تحت پاکستان کے لیے مختص تھا۔ پاکستان نے اس اقدام کو ایک جنگی عمل قرار دیا ہے کیونکہ سندھ طاس نظام اس کی 80 فیصد زراعت اور پن بجلی کیلئے ناگزیر ہے لہٰذا پاکستان کو اب نہ صرف جنگی تیاریوں کی ضرورت ہے بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کے محاذ پر بھی متحرک سفارت کاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
جمعہ, مئی 23, 2025
رجحان ساز
- ذیابطیس کے مریض بھی آم سے لطف اندوزِ، ہوسکتے ہیں مگر اِن احتیاط پر عمل ضروری ہے، ماہرین
- مودی کا صرف کیمروں کے سامنے ہی خون کیوں گرم ہوتا ہے، راہل کا بی جے پی حکومت سے سوال
- بلوچستان گرمی کی لپیٹ میں درجہ حرارت 48 ڈگری، لوئر دیر کےجنگلات آگ شدت اختیار کرگئی
- جنسی جنونیوں کو کیمیائی کیسٹریشن کے ذریعے خواہش کم کرنیکا منصوبہ 20 برطانوی جیلوں تک توسیع
- ہندوستان کے دشمنوں نے دیکھ لیا جب سندور بارود میں بدلتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ نریندر مودی کا کنایہ
- واشنگٹن میں یہودی اجتماع کے باہر فائرنگ سے دو اسرائیلی سفارتکار ہلاک ایک ملزم کو گرفتار کرلیا
- خضدار: آرمی اسکول بس پر حملے میں ہندوستان ملوث، پاکستان اسکا ثبوت فراہم کرئیگا، خواجہ آصف
- غذائی امداد کی بندش غزہ میں بچوں خلاف غیر انسانی اسرائیلی رویہ عالمی برادری فوری کارروائی کرئے