افغان طالبان کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی ہے جس میں خواتین اور بچوں سمیت آٹھ شہری ہلاک ہوئے، پاکستان نے تاحال اس معاملے پر تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق پاکستان کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ اس کارروائی میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا، ادھر افغان وزارت دفاع کے مطابق ایک جوابی کارروائی میں سرحد پار پاکستانی فوج کے مراکز اور فوجی چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا، اُدھر پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کے انٹیلیجنس آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں آٹھ دہشتگرد ہلاک ہوئے ہیں، ایک بیان میں فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ 17 اور 18 مارچ کی درمیانی شب سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں انٹیلی جنس بیس آپریشن کیا جس میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع تھی۔فوج کے مطابق آپریشن کے دوران شدید فائرنگ کے تبادلے میں آٹھ دہشت گرد ہلاک ہوئے جن میں کمانڈر سحر جانان شامل تھے جو 16مارچ کو میر علی میں سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملے میں ملوث تھے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب تھے۔
دوسری طرف افغانستان کے صوبہ پکتیکا اور خوست میں پاکستانی فورسز کے مبینہ حملے کے بعد افغانستان کی جانب سے ضلع کرم کے علاقے بوڑگی میں گولے پھینکے گئے، افغان فورسز کی گولہ باری سے سکیورٹی فورسز کے تین اہلکار زخمی ہوئے ہیں جنھیں پولیس ذرائع کے مطابق ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان جھڑپ میں چار پاکستانی شہری بھی زخمی ہوئے ہیں جنھیں پاڑا چنار ڈسٹرکٹ ہسپتال لایا گیا ہے جبکہ سرحد پر کشیدگی برقرار ہے جہاں گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ صبح سے وقفے وقفے سے جاری ہے، ڈسٹرکٹ ہسپتال پاڑا چنار کے میڈیکل سپرنٹڈنٹ ڈاکٹر میر حسن نے بتایا کہ ہسپتال میں چار زخمیوں کو لایا گیا ہے جنھیں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ چاروں افراد سرحد کے قریب کے رہائشی ہیں اور انھیں معمولی زخم آئے ہیں، ان زخمیوں میں حاجی دلدار حسین، محمد اقبال، امجد علی اور شباب حسین شامل ہیں، مقامی پولیس زرائع کا کہنا ہے کہ یہ چاروں افراد افغانستان کے جانب سے داغے گئے گولے کے گرنے سے زخمی ہوئے ہیں، یہ واقعہ پاڑہ چنار کے گاؤں شنگ میں پیش آیا ہے۔
1 تبصرہ
Governments of Pakistan and Afghanistan need to act sensibly