حکومتِ پاکستان معیشت کی بحالی بالخصوص ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے خصوصی اقدامات اٹھا رہی ہے جب کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف دوست عرب ممالک سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں، شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد جمعرات کو ہی امارات کا اپنا پہلا دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچے ہیں، اس سے قبل گزشتہ ماہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورۂ سعودی عرب کے دوران پانچ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری پیکج کو جلد مکمل کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا، معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان دوست ممالک کی سرمایہ کاری کے ذریعے معاشی مشکلات سے نکلنا چاہتا ہے لیکن حکومتی ادارہ جاتی نظام سرمایہ کاری کے معاہدوں کو عملی شکل میں تبدیل ہونے نہیں دیتا، پاکستان سرمایہ کاری بورڈ کے سابق چیئرمین ہارون شریف کہتے ہیں کہ خلیجی ممالک تیل پر انحصار کم کرنے کیلئے دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری چاہتے ہیں اور پاکستان ان کے لئے پرکشش جگہ ہے، انہوں نے کہا کہ دوست ممالک کا سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار خوش آئند ہے لیکن کاروباری آسانیاں نہ ہونے، بلند شرح سود اور سکیورٹی مسائل وہ بنیادی عوامل ہیں جو سرمایہ کاری کے اعلانات اور معاہدوں کو عملی شکل دینے میں مشکلات پیدا کرتے ہیں، ان کے بقول ماضی میں گورننس اچھی نہ ہونے اور حکومتی اداروں کی عدم معاونت کے باعث سیاسی قیادت کے سرمایہ کاری کے یہ اعلانات صرف معاہدوں تک ہی محدود رہے ہیں۔
ہارون شریف نے کہا کہ پاکستان کے خلیجی دوست ملکوں کے ساتھ روابط مالی امداد، زرِ مبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے کیلئے ڈپازٹس، ادھار ادائیگیوں پر تیل کی فراہمی تک رہے ہیں جو کہ اب طویل سرمایہ کاری کی طرف بڑھانے کی جانب گامزن ہیں، ماہر معیشت ثاقب شیرانی کہتے ہیں کہ سعودی عرب، یو اے ای اور قطر کے ساتھ ماضی میں کیے گئے سرمایہ کاری کے معاہدے تاخیر کا شکار رہے ہیں اور سالوں بعد بھی عملی شکل اختیار نہیں کرسکے، انہوں نے کہا کہ دوست ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے سنجیدہ ہیں لیکن مقامی مسائل کے سبب ان معاہدوں پر عمل درآمد نہیں ہوپاتا اور یہ صورتِ حال بدستور دکھائی دے رہی ہے، ثاقب شیرانی کے مطابق سعودی عرب کی آئل ریفائنری اور قطر کو تین ایئر پورٹ حوالے کرنے کے منصوبے بات چیت کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکے ہیں، گزشتہ ماہ ہی سعودی وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا، اس دورے میں اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کے باوجود کوئی معاہدہ طے نہیں پا سکا تھا، ثاقب شیرانی کے بقول سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دورۂ پاکستان ملتوی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت سرمایہ کاری کے حوالے سے سعودی حکام کو زیادہ راغب نہیں کرسکی ہے، فروری 2019 میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دورۂ پاکستان کے دوران سعودی عرب نے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے جن میں بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ریفائنری لگانے کا معاہدہ بھی شامل تھا، تاہم سرمایہ کاری کے یہ منصوبے تاحال پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے ہیں۔