بیجنگ میں مقیم ایک سفارت کار نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا ہے کہ چین فلسطینی گروہوں کے درمیان اتحاد کیلئے حماس اور اس کی حریف الفتح کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کرنے جارہا ہے، جو اسرائیل کیلئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا، اس سے چین نے سعودی عرب اور ایران کے 2015ء سے بدترین تعلقات کو دوستانہ بنانے کیلئے ثالثی کی تھی جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوسکے، الفتح کے ایک اہلکار نے ایجنسی کو بتایا کہ گروپ کے سینئر عہدیدار عزام الاحمد کی قیادت میں ایک وفد چین روانہ ہوا ہے، حماس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ مذاکرات کے لئے مزاحمتی تنظیم کی ایک مذاکراتی ٹیم حماس کے سینیئر اہلکار موسی ابو مرزوق کی قیادت میں جمعہ کے روز روآنہ ہوچکی ہے، چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بِن نے جمعہ کے روز رسمی بریفنگ میں ملاقات کی تصدیق کئے بغیر کہا کہ ہم فلسطینی قومی اتھارٹی کو مضبوط کرنے کی حمایت کرتے ہیں اور تمام فلسطینی دھڑوں کی بات چیت اور مشاورت کے ذریعے مفاہمت کے حصول اور یکجہتی کو بڑھانے کی حمایت کرتے ہیں۔
غزہ پر اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا جب حماس کا کوئی وفد عوامی سطح پر چین گیا ہے، پارلیمانی انتخابات میں صدر محمود عباس کی فتح پارٹی کو شکست دینے کے بعد حماس 2007ء سے غزہ کی پٹی میں اصل حکمران ہے، اس کے بعد حماس نے فتح کی اتھارٹی کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے کے بعد غزہ سے نکال دیا تھا، الفتح جسے بین الاقوامی سطح پر فلسطینی اتھارٹی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، مقبوضہ مغربی کنارے میں محدود خود مختاری کا استعمال کرتی ہے، مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی سب سے زیادہ مقبول تنظیم حماس فلسطینیوں کے اتحادکیلئے ہمیشہ کوشاں رہی ہے۔