خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ پر عسکریت پسندوں کے حملے میں کم از کم 10 اہلکار جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں، ڈی آئی خان اور سول انتظامی عہدیداروں کے مطابق عسکریت پسندوں نے جمعرات کی شب تحصیل درازندہ میں فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کی زام چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا، چیک پوسٹ میں ایف سی کے محسود اسکاؤٹس کے اہلکار تعینات تھے، پولیس حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کا یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ زیادہ تر اہلکار موقع پر ہی ہلاک ہو گئے، ہلاک ہونے والوں میں ایک جونیئر کمیشن افسر بھی شامل ہے، ترجمان وزارتِ داخلہ کے مطابق حملے میں تین اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں، فوج کے ترجمان نے اب تک واقعے سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے اور نہ ہی عسکریت پسندوں کے کسی گروہ یا جنگجوؤں نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے، تاہم ترجمان وزارتِ داخلہ کے مطابق جان کی بازی ہارنے والے جوانوں نے چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنایا، ترجمان کے مطابق ہلاک ہونے والے چھ جوانوں کا تعلق جنوبی وزیرستان جب کہ چار کا تعلق ضلع کرک سے ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور اس سے منسلک دیگر گروہوں نے کی ہے، خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ سردار على امین گنڈاپور نے ایف سی اہلکاروں کی قتل پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حملے کی مذمت کی ہے، ایک سرکاری بیان میں انہوں نے پولیس کے اعلیٰ حکام سے واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے، وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ چیک پوسٹ پر حملہ انتہائی بزدلانہ فعل ہے، اس قسم کے حملوں سے سکیورٹی فورسز کے حوصلے پست نہیں ہوں گے، دوسری جانب پشاور سے ملحقہ قبائلی ضلع خیبر میں ورسک ڈیم کے قریبی علاقے ملاگوری میں پولیس تھانے پر مبینہ عسکریت پسندوں نے فائرنگ کر کے ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کر دیا ہے جب کہ جنوبی ضلع بنوں میں پولیس اہلکاروں نے عسکریت پسندوں کے ایک حملے کو پسپا کر دیا ہے، بنوں میں یہ حملہ شمالی وزیرستان سے ملحقہ علاقے بکاخیل پولیس تھانے پر جمعرات کی شب ہوا اور پولیس اہلکاروں کی جوابی فائرنگ سے دہشت گرد فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔