پاکستان کے سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کٹھ پتلی حکومت کے بجائے اصلی فیصلہ ساز فوجی قیادت کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دے گی، سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر جاری کیے جانے والے بیان میں عمران خان نے کہا ہے کہ ہم نے محمود خان اچکزئی کو مذاکرات کا مینڈیٹ دیا ہے، فوجی قیادت اپنا نمائندہ مقرر کرے تو ہم مشروط مذاکرات کریں گے، پی ٹی آئی سربراہ کے اس بیان پر ردعمل میں حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں نے انہیں فوج سے مذاکرات کی بجائے نو مئی 2023 کے واقعات پر فوج سے معافی مانگنے کا مشورہ دے ڈالا، اس سے قبل منگل کو اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران فوج سے مذاکرات کا عندیہ دیا تھا تاہم ان کا کہنا ہے کہ فوج اپنا نمائندہ مقرر کرے، وہ وزیر داخلہ محسن نقوی سے کبھی بات نہیں کریں گے، نو مئی 2023 کو عمران خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے، جن کے دوران لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس سمیت دیگر قومی اور نجی املاک کو نشانہ بنایا گیا تھا، ان واقعات میں ملوث افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کیا گیا تھا، نو مئی کے بعد پی ٹی آئی کے کئی رہنما کچھ عرصے کیلئے لاپتہ ہوئے اور واپس آنے کے بعد انہوں نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا، سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ فوجی جنرلز نے نوازشریف اور زرداری کی مشاورت کیساتھ تحریک انصاف ختم کرنے کیلئے سیاستدانوں کو غائب کروایا اور پارٹی سے علیحدگی پر آمادہ کیا۔
دوسری جانب بانی چیئرمین عمران خان مختلف مقدمات کے سلسلے میں قید ہیں، جن کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر قائم مقدمات میں کوئی جان نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ عدالتیں عمران خان کو ریلیف دے رہی ہیں اور کئی مقدمات میں انہیں بری کر دیا گیا ہے تاہم اب بھی ان پر توشہ خانہ سے متعلق مقدمات زیر التوا ہیں، عمران خان کی جانب سے گذشتہ روز فوج سے مذاکرات کا عندیہ دیئے جانے پر انتخابی نتائج میں ہیر پھیر کرکے اقتدار پر براجماں پیپلزپار اور مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں نے انہیں فوج سے مذاکرات کی بجائے نو مئی 2023 کے واقعات پر فوج سے معافی مانگنے اور سیاسی جماعتوں سے بات کرنے کا مشورہ دیا ہے، تحریک انصاف پنجاب کے سیکریٹری اطلاعات شوکت بسرا کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں سیاسی جماعتوں سے مذاکرات بے معنی ہیں، سب کو معلوم ہے کہ انتخابات میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی ٹوٹل 36 نشستیں ہیں لیکن فوج نے انہیں جتوایا اور ہماری نشستیں انہیں دے دی گئیں، اس کے بعد حکومت بھی فوج نے بنوائی ہے، جب سارے عمل میں اعلیٰ فوجی حکام کا ہی کردار ہے تو ہم سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کس لئے کریں؟ شوکت بسرا کے مطابق اس ملک میں ججز بھی خود انصاف مانگ رہے ہیں، ہمارے خلاف تمام کارروائیاں عسکری حکام کی مداخلت پر ہو رہی ہیں لہذا جب تک ہمارے تین مطالبات تسلیم نہیں ہوں گے، بات آگے نہیں بڑھے گی، ہمارا پہلا مطالبہ ہے کہ عمران خان سمیت تمام رہنماؤں اور کارکن، جو سیاسی قیدی ہیں، ان کے خلاف مقدمات واپس لئے جائیں، دوسرا مطالبہ ہے کہ غیر جانبدار الیکشن کمیشن بنایا جائے اور تیسرا مطالبہ دوبارہ شفاف الیکشن کروانے کا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ان مطالبات میں سے کون سا مطالبہ ہے جو حکومتی اتحاد پورا کر سکتی ہے؟