کینیا براعظم افریقہ کے چند بڑے ملکوں میں سے ایک ہے لیکن 5 کروڑ سے زائد آبادی کے ملک میں ایک تہائی افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے ہیں، کینیا کے سالانہ بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپ اور پھر پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے، احتجاج کرنے والے نیروبی میں پارلیمنٹ کی جانب مارچ کررہے تھے اور مظاہرین سے جھڑپ کے بعد پولیس نے ان پر آنسو گیس کے شیل، پانی کی توپوں ، ربڑ کی گولیوں سے دھاوا بولنے کے بعد مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کردی، پولیس کی فائرنگ سے مظاہرین کی ہلاکت اور متعدد افراد کے زخمی ہونے کے بعد نیروبی سمیت کینیا بھر میں تناؤ میں شدید اضافہ ہو گیا ہے، احتجاج میں شریک 26سالہ وکیل الزبتھ نیابیری نے کہا کہ یہ کینیا کے نوجوانوں کی آواز ہے، اگرچہ وہ ہمیں آنسو گیس کے گولے برسا رہے ہیں لیکن ہمیں پرواہ نہیں ہے، ہم یہاں اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے بات کرنے کے لئے آئے ہیں، مظاہرے اب تک بڑے پیمانے پر پرامن رہے تھے لیکن منگل کو دارالحکومت میں افراتفری پھیل گئی، ہجوم نے پولیس پر پتھراؤ کیا، رکاوٹوں کو ہٹا دیا اور بالآخر کینیا کی پارلیمنٹ کے میدان میں داخل ہو گئے، ملک میں انٹرنیٹ سروس بندکردیا گیا
نیروبی سٹی ہال میں گورنر کے دفتر کو آگ لگادی گئی جہاں مقامی فائر بریگیڈ نے آگ بجھائی، مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی اطلاعات موصول ہونے کے بعد کینیا کے مرکزی اپوزیشن اتحاد ایزیمیو نے کہا کہ حکومت نے ہمارے ملک کے بچوں پر وحشیانہ انداز میں طاقت کا استعمال کیا، انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ کینیا اپنے بچوں کو صرف اس لئے مارنے کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ بچے خوراک اور نوکری مانگ رہے ہیں، منگل کو دن میں پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی کے باوجود ہزاروں مظاہرین نے نیروبی میں پرامن مارچ کیا اور پارلیمنٹ کی جانب بڑھتے ہوئے رکاوٹوں کو ہٹا دیا، ہجوم نے ساحلی شہر ممباسا، اپوزیشن کے مضبوط شہر کیسومو اور کینیا کے صدر ولیم روٹو کے گڑھ ایلڈورٹ میں بھی مارچ کیا، ایمنسٹی کینیا نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر پیغام میں حکومت پر زور دیا کہ وہ مظاہرین کے احتجاج کے حق کا احترام کرے، حقوق کے نگراں اداروں نے حکام پر مظاہرین کو اغوا کرنے کا الزام بھی لگایا ہے، کمیشن نے اغوا کیے گئے تمام افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا، کینیا کا بیرونی قرض ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے اور گزشتہ دو سالوں کے دوران ملکی کرنسی کی قدر میں بے پناہ کمی ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، ٹیکس میں اضافے سے عوام پر مزید بوجھ پڑے گا جہاں اچھی نوکریاں اب بھی ملک کے عام نوجوانوں کی دسترس سے باہر ہیں۔