تحریر : محمد رضا سید
ستمبر 1982ء میں لبنان کے علاقہ صابرہ اور شاتیلا کے فلسطینی پناہ گزیں کیمپوں پر اسرائیلی سرپرستی میں فلسطینیوں کا جس بہیمانہ انداز میں قتل عام ہوا اُس نے دنیائے اسلام کو ہلا کر رکھ دیا، اسرائیل نے 16 سے 19 ستمبر تک وحشت اور بربریت کی جو تاریخ رقم کی اس کے نتیجے میں چار ہزار فلسطینی شہید ہوئے جن میں بچوں اور عورتوں کی تعداد زیادہ تھی، اس سانحہ کے بعد رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو امام خمینی ؒکے حکم پر 1979ء سےمنایا جانے والا یوم القدس عالمی حیثیت اختیار کرگیا، یوم القدس کے جلوس اور مظاہرے مقبوضہ علاقوں سمیت یورپ اور امریکہ میں مسلم اتحاد کا عظیم مظہر بن چکے ہیں، یورپ اور امریکہ میں فلسطین کے حامی گروپس بھی اس موقع پر ریلیاں اور مظاہرے کررہے ہیں اور رواں سال کا یوم القدس حقیقی معنوں میں عالمی سطح پر اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے خلاف انسانی حقوق کی پروا کرنے والوں کو موثر پلیٹ فارم مہیا کرئے گا۔
امام خمینیؒ نے یوم القدس کا اعلان کرتے ہوئے اپنے پہلے پیغام میں کہا تھا میری دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ ماہ رمضان کے آخری جمعے کو یوم القدس قرار دیں اور اس دن فلسطین کے مسلمان عوام کے قانونی حقوق کی حمایت میں اپنے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں، میں عرصہ دراز سے تمام مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے سے آگاہ کر رہا ہوں، جس نے ان دنوں ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں پر اپنے مظالم میں اضافہ کر دیا ہے اور خاص طور پر جنوبی لبنان میں فلسطینی مجاہدین کے خاتمے کے لئے ان کے کیمپوں پر مسلسل بمباری کر رہا ہے، میں مسلمانوں اور مسلم حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو جائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے دن جو ایام قدر میں سے بھی ہے اور فلسطینی عوام کی تقدیر کو واضح کرنے کا دن بھی ہو سکتا ہے، اس کو یوم القدس قرار دیں اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو کافروں پر فتح عنایت کرے۔
اس سال یوم القدس ایک ایسی حالت میں منایا جائیگا جب غزہ میں اسرائیلی فوج مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے جبکہ یورپ سمیت امریکہ اورکینیڈا تل ابیب کی پشت پر کھڑے نظر آتے ہیں، یہ ممالک ہتھیار فراہم کرنے کیساتھ ساتھ اسرائیل کی سیاسی مدد بھی کررہے ہیں جبکہ مسلمانوں کی بد بختی دیکھیں کہ عالم اسلام میں مرکزی حیثیت رکھنے والے ملک سعودی عرب نے فلسطینیوں کی مزاحمت پر مکمل چپ سادھ رکھی ہے، سعودی عرب خطے میں امریکا کا اہم اتحادی ملک ہے ،ریاض امریکہ کے ذریعے اسرائیل پر دباؤ دلوانے میں ناکام رہا یہاں تک رفح میں اسرائیلی جارحیت کو نہیں رکواسکا جہاں انسانی الیمہ رونما ہوچکا ہے اور قحط سے مظلوم فلسطینی اپنی جانیں گنوا رہے ہیں مگر سعودی حکمران تو ابھی تک حماس کی غلطیاں تلاش کررہےہیں ،یہ اس بات پر نالاں ہیں کہ حماس کے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی وجہ سے ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات استوار نہیں ہوسکے،اسی طرز عمل کی وجہ سےمسلمان عوام اور حکمرانوں کے درمیان فلسطینی اشو پر خلیج بڑھ رہی ہے ، اسرائیل کی حمایت کرنے والے مسلم حکمران اور تعلقات استوار کرنے کی کوششوں میں مصروف مسلم حکومتیں اچھی طرح سمجھ لیں صرف ایک چنگاری اُن کے تخت و تاج کو جلاکر راکھ کردے گی، مختلف سرویز میں یہ بات سامنے آگئی ہے کہ عرب نوجوانوں کی واضح اکثریت اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے سے متعلق عرب حکمرانوں کی خواہش کی مخالف ہے۔
اسرائیل نے یکم اپریل 2024ء کو دمشق میں ایرانی سفارتخانے کو اپنی جارحیت کا نشانہ بناکر عالمی قوانین کو جس طرح اپنے پاؤں تلے روندھا ہے، اس سے دنیا بھر میں اور مسلم دنیا بدرجہ اتم غم وغصّہ پایا جاتا ہے، اس صورتحال میں عالمی یوم القدس کے احتجاج اور جلوسوں میں شریک افراد میں گرمجوشی یقینی ہے، اسلامی انقلاب ایران کے رہبر اعلیٰ نے دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر اسرائیلی حملے کا جواب دینے کا اعلان کیا ہے اور بتایا ہے کہ جمعہ الوداع یا اس کے بعد کسی دن بھی دن اسرائیل کو بھرپور جواب مل جائے گا، دمشق میں سفارتی عمارت پر حملے سے امریکہ نےاپنے آپ کو فاصلے پر کرلیا ہے مگر یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایرانی جواب پرکیا امریکہ غیرجابندار رہے گا؟ رفح پر اسرائیلی حملے کے موضوع پر امریکی موقف واضح ہے ،اس کے باوجود رفح پر اسرائیلی کےمحدود حملے جاری ہیں امریکہ اسرائیل کو من مانی کرنے سے نہیں روک سکا ہے لیکن یہ طے ہے کہ اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر میزائل حملہ کرکے خطے میں لگی آگ پر تیل چھڑک دیا ہے۔
اس تناظر میں یوم القدس کے اجتماعات اسرائیل کو مزید بے نقاب کرنے کیلئے اہمیت رکھتے ہیں، پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایم ڈبلیو ایم کے رکن نےقومی اسمبلی میں ایک قرارداد جمع کرائی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت پاکستان یوم القدس کوسرکاری سطح پر منائے، اس مطالبے کو ملک کے تمام طبقات کی حمایت حاصل ہے، اسرائیل کو انگیج کرنے کیلئے موجودہ حکومت پر گاہے بہ گاہے الزام لگایا جاتا ہے لہذا یہ موقع ہے کہ یوم القدس سرکاری سطح پر منانے کا اعلان کرکے حکومت اس الزام کی عملی تردید کرسکتی ہے۔