حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت اور فوج کے جنرلز غزہ میں جننگی قیدیوں کی ہلاکت کیلئے بدستور ذمہ دار ہیں، فلسطینی گروپ کی طرف سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے متعدد قیدیوں کی لاشیں نظر آرہی ہیں، ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی شہری اپنے وزیراعظم نتن یاہو اور ان کی حکومت سے اسرائیلی قیدیوں کی شناخت اور ناموں کے بارے میں پوچھیں، وہ آپ کو سب کچھ بتا سکتے ہیں کیونکہ وہ انہیں اچھی طرح جانتے ہیں،کیا اس طرح اسرائیلی حکومت قیدیوں کو واپس لانا چاہتی ہے، ویڈیو کا متن عربی، عبرانی اور انگریزی میں پڑھا گیا ہے، جس میں اسرائیلی خاندانوں کی تصویر دکھائی گئی ہے جو ایک تابوت پر رو رہے ہیں، یہ فوٹیج اس وقت سامنے آئی ہے جب اسرائیلی مظاہرین نے تل ابیب میں ہفتہ وار مظاہروں کے دوران اسیروں کی رہائی کیلئے اسرائیلی حکومت پر زور دیا گیا کہ تل ابیب حماس کیساتھ جنگ بندی کا جلد از جلد معاہدہ کیا جائے، دوسری طرف نیٹ بلاکس واچ ڈاگ نے تصدیق کی ہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کو اسرائیلی حملوں کے دوران انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی میں رکاوٹ کا سامنا ہے، برطانیہ میں قائم انٹر نیٹ مانیٹر نے کہا کہ رفح، دیر البلاح، خان یونس اور غزہ سٹی میں دیکھی جانے والی رکاوٹیں زمین پر ہونے والے واقعات کی کوریج کو محدود کرنے کا امکان ہے۔
سات اکتوبر کو جنگ کے آغاز کے بعد سے غزہ کی پٹی میں انٹرنیٹ ٹریفک متعدد بار بلیک آؤٹ اور شٹ ڈاؤن سے گزر چکا ہے، انٹر نیٹ بندش نے زمین پر کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں معلومات کو دستاویز کرنا اور شیئر کرنا بھی انتہائی مشکل بنا دیا ہے جبکہ بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کی جانب سے وہاں فوجی آپریشن بند کرنے کے حکم کے باوجود اسرائیل نے رفح پر اپنے مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور یقین رکھا جائے کہ اسرائیل اس پاگل پن کو اس وقت تک نہیں روکے گا جب تک ہم اسے روک نہیں دیتے، اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانی نے کہا کہ رکن ممالک کو اسرائیل کے ساتھ پابندیاں، ہتھیاروں کی پابندی اور سفارتی و سیاسی تعلقات کو معطل کرنا چاہیئے جب تک کہ وہ حملہ بند نہ کر دے، آئی سی جے کا فیصلہ اس سال اپنی نوعیت کا تیسرا فیصلہ اسرائیل کو غزہ کے سب سے جنوبی حصے رفح میں پناہ لینے والے تقریباً 1.4 ملین فلسطینیوں کو بے حد خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی جارحیت روکنے کا حکم دیا ہے، 7 مئی کو اسرائیل کی جانب سے حالیہ جارحیت کے آغاز کے بعد سے 800,000 سے زائد فلسطینی رفح سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔