جمعیت علماء اسلام(ف) کے سربراہ کے انکشافات نے پاکستان کی سیاست نے ہلچل مچادی ہے، فضل الرحمٰن نے اپنے مختلف انٹرویوز میں بتایا کہ عمران خان کی چلتی ہوئی حکومت کو گرانے کیلئے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی چیف نے تحریک عدم اعتماد کیلئے پوری پلاننگ بناکر پی ڈی ایم کو دی تھی ہم نے تو اس پلاننگ پر سرتسلیم خم کیا، اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ (فضل الرحمٰن) عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے مخالف تھے، فضل الرحمٰن کے انٹرویو کی تفصیلات میں جائے بغیر صرف اسی انکشاف کو دیکھیں تو یہ صرف پاکستان کی سیاست میں نہیں بلکہ افواج پاکستان میں ہلچل مچانے کیلئے کافی ہے، فضل الرحمٰن نے واضح کردیا کہ عمران خان کو فوج کی ایما پر وزیراعظم کے منصب سے ہٹایا گیا، بات صرف جنرل قمر باجوہ کی نہیں فضل الرحمٰن نے تو سیاست میں فوج کے کردار پر سے پردہ اُٹھا یا ہے مگر فوج نے فضل الرحمٰن کے خلاف ابتک کوئی کارروائی نہیں کی پورے ملک میں ایف آئی آر درج کرانے کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہوا نہ ان پر غداری کا الزام لگا، یہ تو فوج کی روایت نہیں رہی ہے۔
فضل الرحمٰن نے انکشافات کیلئے درست وقت کا انتخاب کیا جب پاکستانی فوج کی عدم مقبولیت کی سطح بہت اونچی سطح پر ہے، میاں نواز شریف کو پاکستان لاکر جیل میں ڈالنے کے بجائے انہیں آزاد شہری کا درجہ دلانے سے لیکر انتخابات میں 70 سے زائد نشتوں پر کامیابی دلوانے اور پھر شہباز شریف کو وزارت اعظمیٰ کے منصب تک لے جانے کی تیاریاں سب فوج کے کھاتے ڈال ڈالی جارہی ہیں، فوج کے موجودہ آئی ایس آئی چیف آئی ایس پی آر کے سربراہ کیساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس کرنے کا تجربہ حاصل کرچکے ہیں، انہیں چاہیئے وہ فوراً سے پیشتر قوم کو اعتماداد میں لیں اور بتائیں تحریک عدم اعتماد سے قبل سیاستدان کس طرح ڈگی میں چھپ کر فوجی جنرلوں سے ملتے تھے فضل الرحمٰن کے انکشافات نے عمران خان کی اپوزیشن کو بچایا ہے ، ریاست پاکستان کو اس مقام تک پہنچانے میں نوازشریف ، شہباز شریف اور آصف زرداری سمیت اِن کے بیٹے بلاول بھٹو جو چھپ چھپ کر جنرلوں سے ملتے تھے کا بڑا اہم کردار ہے، ان سب سیاستدانوں نے کرپشن کے کیسز معاف کرانے اور اپنی ضداور حسد کی تسکین کیلئے ملک کی بربادی کا اہتمام کیا۔
فوج کے سیاسی کردار پر پاکستان میں بہت بحث ہوتی رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ فوج کا سیاسی کردار موجود ہے اور اس کی ایک وجہ طاقتور ادارے کی حیثت سے سیاستدانوں کا اِن سے مدد مانگنا ہے، ملک کی تمام سیاسی قوتیں اگر اجماع کرلیں کہ کچھ بھی ہوجائے وہ سیاست میں مدد کیلئے فوج سے رجوع نہیں کرینگے تو کیا مجال ہے کہ فوج سیاست میں دخل اندازی کرئے، وزیراعظم کیوں فوجی سربراہ سے ملتے ہیں، غیر ملکی عہدیدار اور حکام جب فوجی سربراہ سے ملتے ہیں تو کیوں نہیں وزارت خارجہ کا پروٹول افیسر وہاں موجود ہوتا، ہمارے پڑوس میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت موجود ہے، وہاں کی فوجی قیادت کیساتھ سیاسی حکومتوں کا جو رویہ ہےاُس کی مثالیں دی جاتی ہیں مگر عمل کرنے سےسیاستدان اس لئے ڈرتے ہیں کہ وہ خود اس منظم ادارے کی مدد حاصل کرتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی فرماتے ہیں ، سیاست سے مولانا صاحب جا نہیں، آ رہے ہیں، سب مزے لینے کے بعد فضل الرحمٰن کی جانب سے ان باتوں کا کیا فائدہ، تحریک عدم اعتماد کے بعد سب سے زیادہ فائدہ مولانافضل الرحمٰن کو ملا، وہ کہہ دیتے اور تحریک عدم اعتماد کا ساتھ نہ دیتے، فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ یہ ملک ایک اور الیکشن کا متحمل نہیں ہوسکتا، فیصل کی بات درست ہوسکتی ہے وہ فضل الرحمٰن پر تنقید کا حق رکھتے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ اِن کی جماعت نے ایک لڑکے کو ملک کا وزیرخارجہ بنادیا اور سمجھے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح وزیر خارجہ کے بعد وزیراعظم بن جائے گا مگر اس لڑکے کی کارکردگی اتنی مایوس کُن رہی کہ وہ مذاق بن گیا، وہ جہاز لیتا اور دنیا بھر کی سیر کرتا رہا، 16 ماہ میں بلاول بھٹو زرداری نے خارجہ سطح پر کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا، اسی طرح قمر زمان کائرہ نکلے جو اُصولی بات کرتے تو ہیں مگر دوسروں کیلئے اپنی قیادت کیلئے بآواز بلند تقریر کرنے لگ جاتے ہیں۔
دوسری طرف افواج پاکستان کو پنجاب پولیس کی سطح پر لانے والی مسلم لیگ(ن) اینڈ کمپنی کے نمکخوار مگر مہذب اور نرم خو ملک احمد خان نے مولانا فضل الرحمٰن کے بانی پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد سے متعلق سابق آرمی چیف قمر باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے حوالے سے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ نے تحریک عدم اعتماد کی مخالفت کی تھی لیکن مولانا نے ان کی تجویز مسترد کردی تھی، اچھا تو مریم نواز نے فیض حمید کے خلاف بیانات بھی جھوٹ ہیں، ملک صاحب فضل الرحمٰن الزام عائد کرچکے ہیں آپ جنرلوں کے دفاع کا حق اپنے سر نہیں لیں آپ نے تو جنرل قمر باجوہ کو مزید پھنسا رہے ہیں کہ انھوں نے تحریک عدم اعتماد لانے سے پی ڈی ایم کو روکا وہ کون ہوتے ہیں سیاستدانوں کو سبق پڑھانے والے آپ کا موقف تو فصل الرحمٰن کے الزام کی تحقیقات کا راستہ کھول رہا ہے، یہاں تو خاموشی میں ہی عزت ہے معاملہ جن کا ہے انھیں جواب دینے دیں، پاکستان کے عوام نہیں بھولے کہ پانامہ کیس میں نوازشریف کو فوج نے ہی بچایا اور وہی اُنہیں واپس لائی ہے۔