تحریر: محمد رضا سید
حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ شہادت اور اس سے قبل جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے کمانڈر فواد الشکر کی ٹارگٹ کلنگ کے سنگین واقعات میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے باوجود امریکہ نے ایک بار پھر تل ابیب کو یقین دہانی کرائی ہے کہ واشنگٹن اسرائیل کو تہران سے لاحق خطرات کے دوران اُسکی سلامتی کا تحفظ کرنےکیلئے پُرعزم ہے، وائٹ ہاؤس نے ترجمان کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو بتایا کہ واشنگٹن ایران کے تمام خطرات کے خلاف اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے پُرعزم ہے اور اس مقصد کیلئے امریکہ براہ راست فوجی کارروائی میں شمولیت کیلئے تیاری کرچکا ہے، امریکہ نے ایرانی بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کے حملوں کو روکنے کیلئے امریکہ نے خطے میں جدید ترین فضائی دفاعی نظام سے مزین بحری طاقت میں اضافہ کردیا ہے، امریکی صدر کی ٹیلی فون کال تہران میں حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد اسرائیل پر حملوں کی دھمکیوں کے بعد وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے حوصلوں کو تقویت پہنچانے کیلئے کی تھی، حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اور چیف مذاکرات کار اسماعیل ہنیہ پر قاتلانہ حملے کے بعد امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلیکن نے واضح کیا تھا کہ اس قتل میں امریکہ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی امریکہ کو اسکا علم تھا، امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان پر دنیا بھر کے باشعور لوگ اور تجزیہ نگار حیران ہیں، اسرائیل سمیت دنیا بھر کے تجزیہ نگار امریکی وزیر خارجہ کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں، دنیا کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے جس کے پاس خلا میں دسیوں سٹیلائٹ کا کنٹرول ہے جو دنیا کے کسی بھی حصّے کو فوکس کرکے اطلاعات جمع کرتے ہیں اور اُس ملک کی مقتدرہ کو معلوم نہیں کہ دنیا کو جنگ کے شعلوں سے بچانے والی سیاسی شخصیت کو اُس کا اتحادی نشانہ بنانے جارہا ہے، امریکی صدر جو بائیڈن اور اِن کی نائب صدر اور ڈیموکریٹک پارٹی کی ممکنہ صدارتی امیدوار کملا دیوی ہیرس نے مشترکہ کال کے دوران وزیراعظم نتین یاہو کو یقین دلایا کہ اگر ایران نے تل ابیب پر حملہ کیا تو امریکہ اسکی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے براہ راست مداخلت کرئے گا۔
پاکستان کی جانب سے سرکاری طور پر دہشت گرد قرار دیئے گئے اسرائیلی وزیراعظم بنمجن نیتن یاہو گذشتہ ماہ کے اختتامی ہفتے میں اپنے دورہ امریکہ کے دوران ایران کے ایٹمی پروگرام پر حملے کی تل ابیب کی دیرینہ خواہش پر امریکی مقتدرہ کی حیل و حجت کا رونا روتے رہے اور امریکی مقتدرہ کو قائل کرتے رہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام جس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے وہ خطرے کی گھنٹی ہے، امریکی مقتدرہ نے نیتن یاہو کے گڑگڑانے کو کس قدر سنجیدہ لیا ہے اس کا نتیجہ ہم مستقبل قریب میں دیکھ سکیں گے مگر اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتے کہ اسرائیل کے اقدامات تہران کو مشتعل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں، اسماعیل ہنیہ کے قتل معمولی بات نہیں جبکہ وہ ایران کے سرکاری مہمان تھے، یہ وقت ایرانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر بہت بھاری ہے، انہیں اہم سوالوں کے جوابات بھی دینا ہیں اور جب تک خاموشی رہے گی اُنگلیاں اُٹھ رہیں گی، دنیا بھر میں ایران کے فضائی دفاعی نظام کا مذاق اُڑایا جارہا ہے، شفاف تحقیقات سامنے نہیں لائی گئیں تو ایران کے دشمن ممالک اس کا فائدہ اُٹھاتے رہیں گے اور گمراہ کُن پروپیگندہ کرکے ایران کی عالمی ساخت اور ایرانی عوام کی سکیورٹی کے حوالے سے اُن کے اعتماد کو متزلزل کرتے رہیں گے، ایران نے اسرائیل کو اپریل 2024ء جواب دیا تھا، جب اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارتی عمارت کو میزائیلوں سے نشانہ بنایا تھا، ایران نے اسرائیل کی سکیورٹی بریچ کرنے میں کامیاب ہوا مگر یہ کمزوز ردعمل تھا، اسرائیل کے بڑھتے ہوئے جرائم میں امریکہ اور مغربی ممالک اسکے حصّہ دار ہیں، اِن کی ہی حمایت سے تل ابیب کے حکمران بدمست ہاتھی کی طرح عالمی قوانین کو روندھتے چلے جارہے ہیں، اسرائیل کی نظر میں کسی بھی ملک کی خودمختاری اہمیت نہیں رکھتی وہ ہر آواز کو دبا کر فلسطین کے چپے چپے پر قبضہ جمانے کا خواب دیکھ رہا ہے، اسرائیلی حکمراں طبقہ بیہودہ نظریات رکھنے والے دائیں بازو کے شدت پسند عناصر کے مکمل کنٹرول ہے جو لال گائے تلاش کرکے اس کے خون سے اپنی مذہبی تقریب منعقد کرنا چاہتے ہیں، یہ بات سوچنے میں کتنی ناگوار لگتی ہے، ہم متعمدن معاشرے کے دعویدار ہیں کیا ہم اس طرح کی فضول سوچ کیلئے 92 ہزار فلسطینیوں کے قتل کو برداشت کریں، عالمی برادری اسرائیل کو کیوں نہیں سزا دے سکتی، تل ابیت پر اقتصادی اور ہتھیاروں کی درآمد پر پابندی کیوں نہیں لگاسکتی، اس طرح تو دنیا میں امن نہیں ہوسکے گا پھر ہمیں انصاف کی بات نہیں کرنی چاہیے، وقت آگیا ہے کہ فلسطین کی سرزمین سے شدت پسندوں کو پاک کیا جائے جنھیں عالمی سامراج نے 1938ء سے دنیا بھر سے جمع کرکے اس مقدس سرزمین پر پہنچایا اور بندوق کی قوت انہیں اقتدار دلوایا تھا۔
حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اور غزہ میں جنگ بندی کیلئے قطر اور مصر میں ہونے والے مذاکرات میں جماس کی نمائندہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد امریکہ سمیت یورپی ممالک اسرائیل کو سزا دیئے بغیر خطے میں وسیع تر کشیدگی کو کم کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، صدر بائیڈن نے نیتن یاہو کو ایران اور خطے میں اسکے اتحادی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے اسرائیل کو لاحق تمام خطرات کا ملکر مقابلہ کرنے کا یقین دہانی کرائی ہے، ایرانی بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کے حملوں کو روکنے کیلئے امریکہ نے خطے میں جدید ترین فضائی دفاعی نظام سے مزین بحری طاقت میں اضافہ کردیا ہے، اور یہ ایسی حالت میں ہے جب غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے 300 دن جمعرات کو مکمل ہوگئے، تہران میں اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد حماس کی قید میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے معدوم ہوتے امکانات پر قیدیوں کے اہلخانہ نے سوال اُٹھانا شروع کردیا ہے، اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ اسرائیلی حکومت سے جنگ بندی معاہدہ کرنے پر اصرار کررہے ہیں، تل ابیب سمیت اسرائیل کے مختلف شہروں میں ہفتہ وار مظاہروں کے علاوہ بدھ کی رات کو بھی جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے اسرائیلی سڑکوں پر نکل آئے اور وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف نعرے لگائے، متاثرہ خاندانوں اور حکومت مخالف مظاہرین نے جمعرات کی صبح تل ابیب میں مرکزی سڑکوں کو بند کر دیا، ریلیوں کے اشتہارات میں لکھا گیا ہے کہ نیتن یاہو حکومت کے خلاف خاموشی کا مطلب تباہی ہے، قیدیوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ جنگ بندی میں تاخیر سے قیدیوں کی زندگی کے امکانات کم ہورہے ہیں، قیدیوں کے اہل خانہ نے کہا کہ ہم کثیر المحاذ جنگ سے ایک قدم دور ہیں اور ہمیں معلوم نہیں کہ اسرائیلیوں کا مستقبل کیا ہے، مظاہرین میں شامل متان کے اہل خانہ نے بتایا کہ بیشتر اسرائیلی خاندانوں نے اپنے اخراجات 80 فیصد تک کم کرلئے ہیں، ہمیں نہیں معلوم جنگ کے بعد ہماری زندگی کیسے گزرے گی جبکہ جنگ کی وجہ سے لوگوں نے اپنے کارروبار کو محدود کرلیا ہے، ملک کا سارا نظام درہم برہم ہوچکا ہے کارخانے بند ہیں اور بجلی بنانے کی صلاحیت کم کرنا پڑی ہے، کیا اب اسرائیلیوں کو بے روزگاری کا سامنا کرنا ہوگا، اِن سوالوں کے جواب نہیں مل رہے ہیں اور اسرائیلی ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں، ہم نے کبھی ایسا نہیں سوچا تھا جو ہمارے ساتھ ہورہا ہے، شمال میں جنگ بندی کے امکانات نظر نہیں آرہے اس محاز سے بے گھر ہونے والے 460 خاندان بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں جبکہ نیتن یاہو کی حکومت معمولی مدد کے بدلے سخت حالات میں زندگی گزارنے کا مطالبہ کرتی ہے یہ سب کب تک چلانا چاہتے ہیں، ہمیں اپنے گھروں کو واپس جانا ہے، ہمیں دوبارہ سانس لینے دو۔