تحریر: محمد رضا سید
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مشن نے کہا ہے کہ امریکہ نے اسرائیلی لڑاکا طیاروں کو ایرانی فوج اور ریڈار سائٹس پر میزائل داغنے کے لئے عراقی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے کر اسرائیل کو ایران کے خلاف فضائی حملے کرنے کے قابل بنایا ہے، دوسری طرف عراقی مزاحمتی تحریک حشد الشعبی کی چھتری تلے 12 مزاحمتی تنظیموں نے امریکہ کو ایک مکار ریاست قرار دیتے ہوئے ملکوں کی خودمختاری کو پامال کرنے والا ملک قرار دیا ہے، حشد العشبی میں شامل البدر، کتائب ابوالفضل العباس، لواء علی الاکبر، کتائب حزبالله، عصائب اهل الحق، سرایا السلام، کتائب سیدالشہداء اور دیگر تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ عراق میں موجود امریکی اڈوں کو ہرگز اجازت نہیں ہے کہ وہ ملک کی خودمختاری کے خلاف دشمن ملک کی کسی بھی طرح کی مدد کرئے، اِن تنظیموں نے عہد کیا ہے کہ امریکہ کو اس گھناؤنے عمل پر ضرور سزا دی جائے گی اور امریکی اڈوں پر حملوں کو تیز کیا جائیگا، عراق میں موجود امریکی افواج کی جانب سے اسرائیل کو مدد فراہم کرنے پر عراقی سیاسی جماعتوں نے بھی احتجاج کیا ہے، ستمبر 2024ء کو عراق اور امریکہ کے درمیان امریکی فوج کے انخلا کیلئے معاہدہ پر اتفاق ہوگیا ہے، عراقی وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر فرہاد علاؤالدین نے میڈیا کو بتایا کہ امریکی اور دیگر مغربی فورسز کے انخلاء پر واشنگٹن کے ساتھ تکنیکی مذاکرات مکمل ہوچکے ہیں، مجوزہ معاہدے کے مطابق ستمبر 2025 تک سینکڑوں امریکی فوجی ملک سے چلے جائیں گے جبکہ باقی 2026ء کے اختتام تک وہاں سے روانہ ہوں گے، عراق میں امریکی فورسز کی موجودگی داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف کارروائی سے زیادہ واشنگٹن میں موجود حکام کے مطابق امریکی فورسز کی عراق میں موجودگی ایرانی اثر و رسوخ کے خلاف ایک اسٹریٹجک پوزیشن کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔
حشد الشعبی میں شامل عسکری گروہوں نے امریکہ پر واضح کیا ہوا ہے کہ عراق میں موجود امریکی اڈوں کو ایران کے خلاف استعمال نہیں کیا جائیگا، اب جبکہ امریکہ نے ایران پر حملے کیلئے اسرائیل کو فضائی حدود کے استعمال کرنے میں کردار ادا کیا ہے تو عراق میں موجود امریکی اڈوں پر حملوں میں تیزی آنے کی توقع رکھنی چاہیے اور اس حوالے سے حشد الشعبی میں شامل طاقتور گروہ جن پر ایران اور لبنان کی حزب اللہ کا اثر و نفوذ ہے، عرق میں امریکی فوج کیلئے مشکلات میں اٖضافہ کرسکتیں ہیں اگر ایران چاہے تو! واضح رہے کہ حشد الشعبی عراق کی سکیورٹی سے مربوط ایک سرکاری ملیشیا گروہ ہے جو عراقی فوج کے سپہ سالار کی زیر سرپرستی فوج کی مدد کرتا ہے، اس میں شامل اکثر تنظیمیں شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہیں، حشد الشعبی چالیس سے زائد گروہوں پر مشتمل ایک لاکھ سے زیادہ افراد کا ایک نظامی گروہ ہے جس میں شیعہ، سنی، عیسائی، عرب، ترکمن اور کُرد شامل ہیں، البدر برگیڈ، عصائب اہل الحق، کتائب حزبالله اور سرایا العتبات حشد الشعبی میں شامل بعض گروہ ہیں، حشد الشعبی کے سپاہ سالار فالج فیاض اور ہادی عامری اس کے جانشین ہیں، 26 نومبر 2016ء کو عراقی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں حشد الشعبی کو ریاست کا دفاعی ادارہ تسلیم کیا جو عراقی آرمی چیف کے تحت ملیشیا ہوگی۔
ایران نے اس سے قبل واضح اعلان کیا تھا کہ جو بھی ملک ایران پر حملہ کرنے میں اسرائیل کی معاونت کرئے گا تہران اُسے اپنا دشمن تصور کرتے ہوئے اُس ملک کے خلاف بھی فوجی کارروائی کرئے گا مگر ہفتے کے روز اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ ایکس پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے ایرانی سرحد سے تقریباً 70 میل دور عراقی فضائی حدود سے حملہ کیا، بیان میں یہ بھی واضح کردیا کہ عراقی فضائی حدود امریکی فوج کے قبضے اور کمانڈ اینڈ کنٹرول میں ہے، اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسرائیل کے ایران پر حملے کے جرم میں یقینی طور پر امریکہ نے سہولت کاری کی ہے، جبکہ اس سلسلے میں عراق کی حکومت اور فوج کو اس مذموم منصوبے سے مکمل طور پر بے خبر رکھا گیا، عراق کی انتظامیہ اور سکیورٹی حکام نے امریکی خیانت سے متعلق تمام معلومات ایران کو فراہم کردیں ہیں جبکہ ایرانی سکیورٹی حکام کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ اُن کا ملک عراق کے اندر امریکی فوجی اڈوں کے خلاف کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے، ایرانی فضائی افواج نے ہفتے کی صبح کہا کہ ملک کے مربوط فضائی دفاعی نظام نے تہران، خوزستان اور ایلام صوبوں میں فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے والے اسرائیلی حملوں کو کامیابی سے ناکام بنایا تاہم کچھ مقامات پر اسرائیلی راکٹوں نے محدود نقصان پہنچایا ہے جبکہ چار فوجی اہلکار جام شہادت نوش کرچکے ہیں، یقیناً اسرائیلی راکٹس فوجی تنصیبات پر فائر کئے گئے تھے لیکن ابھی اسرائیلی حملے کے نتیجے میں نقصانات کی تفصیلات کا سامنے آنا باقی ہے حالانکہ اسرائیل نے روایتی طور پر بڑھکیں مارتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ایران کے ڈرون پروگرام اور میزائل سازی کے کارخانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
ایران نے دو ٹوک الفاظ میں اسرائیلی حملے کو 96 فیصد تک ناکام بنانے کا دعویٰ کیا ہے، آزاد میڈیا اور اہم ملکوں کے سفارتکاروں نے ایرانی فورسز کے اِن دعوؤں کی تصدیق کردی ہے، ایرانی مسلح افواج نے ہفتے کے روز میڈیا کو بتایا کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کرنے کے لئے امریکہ کے زیر کنٹرول عراقی فضائی حدود کا استعمال کیا جبکہ ایران کی ائیر ڈیفنس نے اسرائیلی جنگی طیاروں کو ایران کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا، اس کے علاوہ اسرائیلی میزائلز میں وار ہیڈز کی مقدار ایران کے اسرائیل پر داغے بیلسٹک میزئلوں کے وار ہیڈز سے بانچ گنا کم تھا، جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسرائیل کا بنیادی مقصد اپنی عوام کو تحفظ کا احساس دلانا تھا، لیکن اسرائیل کو مستقبل قریب میں امریکہ یہ سہولت فراہم نہیں کرسکے گا، ایرانی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ایرانی ریڈار یونٹوں کو معمولی اور غیر موثر نقصان پہنچا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ تمام ریڈار یونٹوں کی یا تو مرمت کردی گئی ہے یا دوبارہ سروس کی جا رہی ہے، اسرائیلی میڈیا نے اسرائیل کے ایران پر حملے کے بعدکافی زور و شور کیساتھ تل ابیب کی کامیابی کا پروپیگنڈا کررہا تھا تاہم وقت گزرنے کیساتھ اب یرو شلیم پوسٹ اور ٹائمز آف اسرائیل نے کہنا شروع کردیا ہے تل ابیب حکومت کا حملہ دباؤ کی صورت حال میں تھا اور اسرائیلی فوج کے پاس محدود آپشن تھے۔
دنیا ایران کے فضائی دفاعی نظام کی اہلیت اور اسکی توانائی سے اچھی طرح آگاہ ہوچکی ہے، اسرائیلی طیاروں نے عراق کی ایک مخصوص فضائی حدود سے ایک سے زائد بار ایرانی سرحدوں کے اندر گھسنے کی کوشش کی تاہم ایرانی فضائی اور اُس کے طاقتور فضائی دفاعی نظام نے ہر بار جدید ترین اسرائیلی جنگی طیاروں کی مذموم کوشش ناکام بنادی، اسرائیلی میزائل سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی کسی بھی مرکز تک نہیں پہنچ سکے، جو اسرائیل کے مقدر کی ذلت آمیز شکست ہے، ایران نے اپنے نقصانات کا جائزہ مکمل کرلیا ہے اور وہ اس قدر معمولی ہیں کہ اُس نے فوری طور پر جواب دینا بھی گوارہ نہیں کیا البتہ ایران نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں مناسب وقت پر جواب دینے کے حق کو استعمال کرنے کا عہد کیا ہے لیکن فی الحال اس کا طریقہ کار واضح نہیں البتہ سفارتی میدان میں اسرائیل کو ٹف ٹائم دیا جائیگا۔