پاکستان کی سپریم کورٹ نے 8 فروری سے چند دن قبل پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی نشان بلّے سے محروم کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو برقرار رکھ کر ایک ایسے بحران کو جنم دیا جس نے جمہوری نظام کو اب تک مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے، تحریک انصاف یا سنی تحریک کو مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو عدالت نے تحریک انصاف کی برادر سیاسی جماعت سنی اتحاد کونسل کی درخواست منظور کرتے ہوئے مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان اسمبلی کوحلف اٹھانے سے روک دیا، پشاور ہائی کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے لئے درخواست پر جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے سماعت کی اور عدالت نے حکم دیا کہ اسپیکر مخصوص نشستوں پر منتخب ممبران سے کل تک حلف نہ لیں۔
الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف سے زیادتیوں کا سلسلہ الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان کی تعیناتی کے بعد سے شروع ہوگیا، نوازشریف اور دیگر طاقتور افراد کے کہنے پر تحریک انصاف کیلئے ایک اجنبی کی درخواست پر داخلی انتخابات کو کالعدم قرار دیدیا اور انتخابی نشان چھین لیا اور سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا حالانکہ پشاور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے الیکشن کو درست قرار دیتے ہوئے انتخابی نشان بلّا الاٹ کرنے کا حکم الیکشن کمیشن کو جاری کردیا مگر الیکشن کمیشن آف پاکستان سپریم کورٹ پہنچ گیا اور جہاں اُسے یقین تھا کہ ریلیف مل جائے گا، تحریک انصاف کو انتخابی نشان چھیننے کا معاملہ معمولی نہیں تھا باقاعدہ ایک منصوبہ بندی تھی، ایسی منصوبہ بندی جو محاذ جنگ پر دشمن کے خلاف کی جاتی ہے، تحریک انصاف کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے اور اُس کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی منصوبہ بندی اُسی دن شروع ہوگئی تھی جب عمران خان نے پنجاب اسمبلی توڑنے کا فیصلہ طاقتوروں کی مرضی کے خلاف جاکر کیا تھا۔