پاکستان ریلوے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مسافروں کو بہتر سہولیات کی فراہمی اور محکمے کی بقا کے لئے تمام مسافر ٹرینیں نجی شعبے کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاہم حکام کے مطابق ملازمین کی نوکریاں محفوظ ہیں اور وہ اپنا کام کرتے رہیں گے، ریلوے کی کل 90 مسافر گاڑیاں جبکہ نو مال گاڑیاں چل رہی ہیں، محکمہ ریلوے نے اس سے قبل نو مسافر گاڑیاں نجی شعبے کے ذریعے چلانے کا تجربہ کیا تھا اور اب مزید 22 ٹرینوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، ترجمان ریلوے حسن طاہر بخاری نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ ریلوے نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ترامیمی ایکٹ 2021 کے تحت تمام مسافر گاڑیوں کو پرائیوٹائز کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت گرین لائن، قراقرم اور سکھر ایکسپریس سمیت 22 گاڑیاں اب پرائیویٹ ہوں گی، نو گاڑیاں پہلے ہی نجی شعبہ چلارہا ہے کیونکہ وفاقی حکومت کا تعاون نہ ہونے پر محکمے کو مالی بحران کا سامنا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ سال ریلوے کی آمدن 66 ارب روپے تھی، جو رواں سال 88 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، حکومت کی جانب سے تعاون نہ ملنے پر ریلوے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی مشکل ہوچکی تھی لیکن گذشتہ سال جب سیلاب آیا اور 41 دن ٹرین آپریشن بند رہا تو ہم نے اپنی آمدن بڑھانے کے لئے ٹرینیں پرائیویٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور اب اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔
ترجمان ریلوے کے بقول ریلوے حکام نے یہ فیصلہ قانون کے مطابق کیا ہے لیکن یہ نجکاری نہیں ہے، جس طرح پی آئی اے کی نجکاری کی جا رہی ہے، یہ اس سے مختلف ہے کیونکہ مال گاڑیاں، جن کی تعداد نو ہے، انہیں بڑھائیں گے اور یہ ریلوے خود چلائے گا، ان کو نجی شعبے کے حوالے نہیں کیا جائے گا، انہوں نے بتایا کہ جہاں تک کرایوں کے تعین کی بات ہے تو وہ ریلوے حکام اور ٹرین چلانے والی کمپنیوں کی مشاورت سے ہوگا، جو اخراجات اور آمدن کا توازن دیکھتے ہوئے مقرر ہوتا رہے گا، حسن بخاری کے مطابق ایک وقت تھا جب ریلوے کو وفاقی حکومت کے بیل آؤٹ پیکج پر چلایا جا رہا تھا جبکہ خسارہ مسلسل بڑھتا جارہا تھا، یاد رہے کہ پہلی بار ریلوے نے 15-2014 میں ٹرینیں نجی شعبے کے تحت چلانے کا تجربہ کیا تھا، جو کامیابی سے جاری ہے۔