تحریر: محمد رضا سید
ایران کے پہلے منتخب وزیراعظم ڈاکٹر محمدمصدق کی حکومت کا مصنوعی سیاسی اقدامات کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کے ٹھیک اگلے سال سی آئی اے نے اسی آزمودہ فارمولے کے تحت گوئٹے مالا کے صدر ہاکوبو آربینز کی جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ دیا اور اب یہ پالیسی امریکہ کی خارجہ تعلقات میں اہم جزو کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ، 19 مارچ 1951ء کو ڈاکٹر محمد مصدق نے تیل کی صنعت پر قابض برطانوی کمپنی کی اجارہ داری ختم کرنے اور اسے قومی ملکیت میں لینے کے بل کی دستاویز پر دستخط کئے تھے، جس نے ایرانی تاریخ میں ترقی اور خوشحالی کا دروازہ کھولا اور یوں ایران کی معدنی دولت اغیار کی جیب میں جانے کے بجائے ایرانیوں پر خرچ ہونے لگی،آج بھی اس دن کو ایرانی یاد رکھے ہوئے ہیں ،قدر شناس قوم ڈاکٹر مصدق کی محبت کو دلوں میں بسائے ہوئے ہے ، مارچ 1951ء کے اقدام کے فورا ًبعد ہی ڈاکٹر مصدق کے خلاف شہنشاہ ایران ، امریکی سی آئی اے اور برطانوی ایم آئی 6 کا شیطانی مثلث وجود میں آگیا تھا، شہنشاہ ایران اور چند فوجی جنرنیلوں کی مفاد پرستی پر مبنی غداری نے اغیار کو موقع فراہم کیا کہ یہ وہ اپنے وسائل کا بھرپور استعمال کرکے ایرانی عوام کے مقبول ترین وزیراعظم کے خلاف مصنوعی سیاسی انتشار پیدا کریں اور پھراسی مذموم منصوبے کے آخری حصّے کے طور پر غدار شہنشاہ نےقانونی اختیار کے بغیر جنرل زاہدی کے ذریعے وزیراعظم ڈاکٹر محمد مصدق کو اُن کے عہدے سے 19 اگست 1953ء کومعزول کردیا ، اس فراڈ سیاسی تبدیلی کو عالمی سطح پر بڑی آسانی سے قبول کرلیا گیا اور جمہوریت کی نام نہاد دعویدار مغربی حکومتوں نےاُف تک نہیں کی تھی۔
امریکہ نےسمجھاکہ اُس نے شہنشاہ ایران اور غدار جنرنیلوں کے ذریعے قوم پرست ڈاکٹر مصدق کوعبرت کا نشان بناکر کامیاب ہو چکے ہیں، امریکیمقتدرہ کو ہرگز علم نہیں تھا کہ چند سالوں میں اسکا تہران سے بوریا بسترلپیٹ دیا جائے گا، شہنشاہ ایران نے 1951 میں عوامی دباؤ کے تحت عام انتخابات کروائے جن کے نتیجے میں قوم پرست رہنما محمد مصدق وزیرِ اعظم بن گئے، اُنھوں نے تو دو تہائی پارلیمانی اکثریت کے بل بوتے پر وزیرِ دفاع اور بری فوج کے سربراہ کی نامزدگی کے اختیارات شہنشاہ سے واپس لے لئے پھر شاہی خاندان کے سالانہ ذاتی بجٹ میں کمی کر دی، پھرشاہی زمینیں بنامِ سرکار واپس ہوگئیں، زرعی اصلاحات کے ذریعے بڑی بڑی جاگیر داریوں کو ختم کیا گیا، کسانوں میں ضبط شدہ زمینیں بانٹنے کا سلسلہ شروع ہوا چنانچہ ایسے خطرناک وزیراعظم کو اسکتباری طاقتیں کیسے برداشت کرتیں ، یوں تو مصدق حکومت کے خاتمے کا مشترکہ ٹھیکہ امریکی سی آئی اے نے اٹھا لیا تھا مگر اس پورے کھیل کو شروع کرانے میں بوڑھے سامراج برطانیہ کا ہاتھ تھا، سی آئی اے نے اس پروجیکٹ کے لئے دس لاکھ ڈالر مختص کئے اور یہ بجٹ تہران میں سی آئی اے کے اسٹیشن چیف کرمٹ روز ویلٹ کے حوالے کر دیا گیا، ایم آئی 6 کا بجٹ اس کے علاوہ تھا، مصدق حکومت گرانے کیلئے کھیل کا آغاز ایرانی ذرائع ابلاغ میں اچانک مصدق کی پالیسیوں پر تنقید میں تیزی لا کر شروع کیا گیا پھر ملک کے مختلف شہروں میں ڈالرز خرچ کرکے چھوٹے چھوٹے مظاہرے شروع کرائے گئے، امریکی اور برطانوی ایجنٹوں نے اسی دوران کئی اعلیٰ فوجی افسران کو بھی خرید لیا ، تہران پولیس کے سربراہ جنرل افشارطوس کے ہاتھ ان بکاؤ ایرانی فوجی جنرنیلوں کی فہرست ہاتھ لگ گئی لیکن اس سے پہلے کہ وہ حرکت میں آتے، برطانوی ایجنٹوں نے انہیں قتل کروا دیا، ایم آئی 6 کے اہلکار نورمن ڈاربی شائر نے خود اینڈ آف ایمپائر، نامی ٹیلی ویژن سیریز کے لئے 1985 میں ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ افشارطوس کو ایم آئی 6 نے قتل کیا تھا۔
دوسری طرف لفافہ صحافی اخباروں میں بڑھ چڑھ کر ڈاکٹر مصدق اور ان کی پالیسیوں پر بے بنیاد تنقید کرنے لگے جن میں انہیں نہ صرف کمیونسٹ بلکہ یہودی نسل سے قرار دیا جا رہا تھا، کچھ کالم نگار انکشاف کررہے تھے کہ وہ دراصل اندر سے برطانیہ سے ملے ہوئے ہیں اور انہوں نے تیل کی صنعت کو نیشنلائز کرکے ایران کی بربادی کے عہد نامے پر دستخط کر دیئے ہیں یہی نہیں بہت سے کالم کالم سی آئی اے لکھے جارہے تھے، اور مدیر انہیں اپنے اپنے اخباروں میں جوں کا توں چھاپنےمیں ایک دوسرے سے بازی لینے کیلئے سرگرم ہوگئے، ایک رپورٹ کے مطابق تہران کے تین چوتھائی اخبار اس سازش میں شریک تھے، سی آئی اے کے ایک اہلکار رچرڈ کاٹم نے اس واقعے کے کئی برسوں بعد میں ایک انٹرویو میں بتایا میں کوئی بھی کالم لکھتا وہ اگلے دن ایرانی اخباروں کی زینت بن جاتا، اس سے عجیب قسم کی طاقت کا احساس ہوتا تھا، ان کالموں میں مصدق کو کمیونسٹوں کے ساتھ ساز باز کرنے والا اور جنونی ثابت کیا جاتا تھا۔
جنرل زاہدی نے وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھالیا، ایک فوجی دستے نے ڈاکٹر مصدق کی رہائش گاہ پر چڑھائی کردی اور گرفتار کرلیا، شہنشاہ فرانس سے تہران پہنچا اور ڈاکٹر مصدق پر غداری کا مقدمہ چلایا گیااور نام نہاد عدالت نے سزائےموت تجویز کی تھی مگر شاہ ایران نے عوام میں ڈاکٹر مصدق کیلئے نیک خواہشات کی بنا پر سزائے موت کو تین سال کی قیدِ تنہائی اور بعد ازاں گھر پر عمر بھر کی نظربندی میں بدل دیا،امریکی سی آئی اے اور برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 کا حکومت تبدیل کرنے کا یہ آخری پروجیکٹ نہیں تھا،حالیہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو مصر کے صدر مرسی اور پاکستان میں عمران خان کی جمہوری حکومتوں کو گرانے میں امریکہ اور برطانیہ کا ہاتھ صاف نظر آتا ہے، اسکرپٹ ایک ہے کردار بدل دیئے جاتے ہیں، استکباری طاقتوں کی زد پر آنے والے اقوام کو چوکنا رہنا چاہیئے کب دشمن وار کردے اور قوم سالوں پیچھے چلی جائے، سمجھدار کیلئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔