تحریر : محمد رضا سید
فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے جنگ بندی معاہدے سے قبل اسرائیلی حملے بند کرانے کی اپنی شرط پر لچک دکھاتے ہوئے، اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے تک خونریزی جاری رکھنے پر اصرار کو قبول کرتے ہوئے اُن تمام قابل عمل شرائط پر بات چیت پر اپنی آمادگی کا اظہار کیا ہے مگر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ مستقل جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے کو اسرائیل کے جنگی اہداف کے حصول میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، جب تک اسرائیل اپنے اہداف حاصل نہ کرلے اس وقت تک ہمیں جنگ جاری رکھنا ہوگی، اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کے تجویز کردہ منصوبے کو پیش کیا تھا جس کے مطابق اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کیلئے طریقہ کار طے کرنے کے دوران چھ ہفتے کی جنگ بندی کو اُصولی طور پر منظور کیا تھا بنجمن نتین ہاہو نے اس منصوبے سے الگ ایک اور شرط کا اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی مصر کیساتھ سرحدی راہداریوں سے حماس کی جانب سے ہتھیاروں کے خیالی حصول کو روکنے کیلئے نگرانی کا نظام تل ابیب کے سپرد رہنا چاہیے جبکہ فلسطینی عسکریت پسندوں کو شمالی غزہ واپس جانے کی اجازت نہیں ہوگی حالانکہ حماس نے جس امریکی منصوبے کی منظوری دی ہے اُس کے تحت رفح اور دیگر سرحدی کراسنگ سے روزآنہ انسانی بنیادوں 400 ٹرک غذائی اشیاء لیکر غزہ میں داخل ہونگے، نیتن یاہو نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل زندہ قیدیوں کی بڑی تعداد میں واپسی کو مذاکرات کے دوران ترجیحی نکتہ رکھے گا، دوسری طرف حماس کے ایک رہنما نے اتوار کے روز میڈیا کو بتایا کہ مستقل جنگ بندی کی بنیادی شرط کو واپس لیتے ہوئے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کیلئے مذاکراتی عمل شروع کرنے پر اتفاق کرنے کا مقصد مستقل جنگ بندی کیلئے اُمید کی فضاء پیدا کی جائے اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کے تجویز کردہ منصوبے کو پیش کیا تھا جس کے مطابق اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کیلئے طریقہ کار طے کرنے کے دوران چھ ہفتے کی جنگ بندی کو یقینی بنایا جائے گا، امریکہ، مصر اور قطر کی جانب سے گذشتہ دس روز سے اسرائیل اور حماس پر ثالثوں کی نگرانی میں نئے مذاکراتی عمل کو شروع کرنے پر زور دیا جارہا تھا تاکہ نو ماہ سے جاری جنگ کو روکنے کے لئے فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھ سکیں۔
حماس کے رہنماؤں نے لبنان میں اپنی اتحادی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کی قیادت سے بھی بھرپور مشاورت کی ہے اور متفقہ طور پر مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے پر اتفاق ہوا، حماس نے عالمی برادری پر واضح کردیا ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی معاہدے تک پہنچنے کیلئے گیند اب اسرائیلی کورٹ میں ہے، حماس کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل نے روایت کے مطابق مذاکرات میں رخنہ نہ ڈالا تو مذاکراتی عمل دو سے تین ہفتے مکمل کئے جاسکتے ہیں، حماس نے مستقل جنگ بندی کے شرط سے پیچھے ہٹنے کا مقصد ہے مستقل جنگ بندی کو یقینی بنانا ہے تاکہ غزہ کے مظلوم فلسطینی سکون کا سانس لے سکیں اور اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے پورے غزہ میں قحط کی بدترین صورتحال کو ختم کیا جاسکے، جسکی وجہ سے سب سے زیادہ بے گھر ہونے والے فلسطینی مصائب کا شکار ہیں اور خوراک کی کمی کے باعث بچے جاں بحق ہورہے ہیں، یاد رہے کہ اسرائیل کی غاصب حکومت حماس کی مستقل جنگ بندی کی شرط کی ابتداء سے مخالفت کرتی آرہی ہے لیکن اسرائیلی شہریوں کی جانب سے بڑھتے دباؤ نے اسرائیل کو مجبور کردیا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کیلئے مذاکرات کی میز پر بیٹھے، اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا گذشتہ جمعہ کو قطری اور مصری ثالثوں کے ساتھ بات چیت کے بعد دوحہ سے روانہ ہوئے جس میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا گیا، نیتن یاہو کے دفتر کے ترجمان نے کہا کہ اگلے ہفتے اسرائیل غزہ کی پٹی میں جنگ بندی پر بات چیت کو بحال کرنے کیلئے اپنے ایلچی بھیجے گا ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان اختلافات برقرار ہیں، مذاکرات سے واقف ذرائع کے مطابق سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز بدھ کو دوحہ پہنچ رہے ہیں، جہاں وہ اسرائیلی حکومت کے ایلچی کے جواب پر ثالث ملکوں کے مذاکرات کاروں سے تبادلہ خیال کریں گے۔
غزہ میں مستقل جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے میں ابھی کافی وقت ہے، اسرائیل جسے خطے کی ایک بڑی طاقت ہونے کا غرور تھا اُسے مسلم مزاحمتی قوتوں نے ریزہ ریزہ کردیا ہے اور تل ابیب کو قیدیوں کی رہائی کے پیچھے چھپنے پر مجبور کررہا ہے، اسرائیلی عوام نے ایک حالیہ سروے میں حماس کیساتھ جنگ میں اسرائیل کی فتح کے امکانات کو مسترد کردیا اور واضح اکثریت نے جنگ بندی کیلئے مذاکرات پر زور دیا ہے، تل ابیب کو اس حقیقت کا سب سے زیادہ ملال ہے کہ وہ یہودیوں کو اسرائیل میں رہنے کیلئے امن فراہم کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔