تحریر : محمد رضا سید
پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ ہم اپنی آئینی حدود کو بخوبی جانتے ہیں اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں، جنرل عاصم منیر نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 میں واضح طور پر آزادی اظہار کی حدود متعین کی گئی ہیں، جو لوگ آئین میں دی گئی آزادی رائے کی بات کرتے ہیں وہ واضح قیود کی برملا پامالی کرتے ہیں تو کیوں وہ دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، ہم اپنی آئینی حدود کو بخوبی جانتے ہیں اور دوسروں سے بھی آئین کی پاسداری کو مقدم رکھنے کی توقع رکھتے ہیں، آرمی چیف نے یہ گفتگو ایک فوجی تقریب میں کی ہے شاید یہ گفتگو کرتے وقت وہ جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰ خان، جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ ادوار کو پیش نظر نہیں رکھ سکے ورنہ وہ اس طرح کی لایعنی گفتگو سے پرہیز کرتے، پاکستان کی تاریخ کے بدترین ادوار کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو آمرانہ دور میں ہی پاکستان کو اپنے دریاؤں سے ہاتھ دھونا پڑا، کشمیر کو دو طرفہ تنازعہ تسلیم کیا گیا ملک دو لخت ہوا، منشیات اور اسلحہ ہمارے معاشرے کا بڑے پیمانے پر حصّہ بنا اور ہم اُس جنگ کا حصّہ بننے جو ہماری جنگ نہیں تھی، مارچ 2022ء کے بعد سے ابتک جو کچھ ہورہا ہے وہ آئینی ہرگز نہیں ہے، یہ بات اُسی وقت سمجھ آسکتی ہے جب آئین کو جاننے کیساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کیا جائے۔
جنرل عاصم منیر نے یہ درست کہاہے کہ وہ اپنی آئینی حدود کو بخوبی جانتے ہیں، جاننا پہلا مرحلہ ہوتا ہے، ایمان لانا دوسرا اور عمل کرنا تیسرا مرحلہ ہوتا ہے، جنرل عاصم اور اُن کے کم و بیش تمام پیش رو ابھی تک جاننے کے مرحلے میں ہی گول گول گھوم رہے ہیں، پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ بھی کوئی روشن نہیں رہی اور پارلیمان میں پہنچنے والے بدعنوانی اور اقراباء پروری سے باز نہیں آئے لہذا ملک میں کبھی بھی عوام کی حکمرانی قائم نہیں ہوسکی اور جب عوام کی حکمرانی کا بول بالا ہونے کا وقت آیا تو بیرونی مداخلتوں کے ذریعے ایک وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا اور دوسرے کو جیل میں ڈال رکھا ہے جبکہ اربوں ڈالرز کی چوری کرنے والے نام نہاد سیاستدانوں کو فوجی مقتدرہ بھی سپورٹ کرتی ہے اور عدلیہ بھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ناک کے نیچے ایک مفرور شخص کو جو قومی خزانے میں نقب لگا چکا تھا اُسے عدلیہ کی لانڈری میں اُجلا کرکے پیش کردیا گیا اور صرف یہ نہیں ہوا بلکہ جس شخص پر فرد جرم عائد ہونا تھی اُسے وزیراعظم بنایا اور جو ٹین پرسنٹ سے 50 پرسنٹ بن گیا اُسے صدر بنادیا یہ سب آئینی حدود جاننے کے نتیجے میں ہوا ہے۔
پاکستان میں غربت، بے روزگاری، بدامنی، اظہار رائے پر قدغن، میڈیا سنسرشپ، انفرادی اور اداروں کی سطح پر تشدد نے لوگوں کو خودکشیاں کرنے پر مجبور کردیا ہے جبکہ دانش اور ذہانت کے نکاس کا عمل جو مارچ 2022ء سے قبل بھی تھا مگر اس کے بعد جس تیزی سے دانش اور ذہانت کا نکاس ہوا وہ ہمارے مقتدرہ کیلئے قابل توجہ ہونا چاہیئے تھا مگر بڑی ڈھٹائی سے نگراں وزیر اعظم نے کہا جو بھی ملک چھوڑنا چاہتا ہے چھوڑ جائے جب مقتدر افراد اس طرح کی باتیں کریں گے تو عوام میں مایوسی پیدا ہوگی اور اس بات کا یقین رکھنا چاہیئے کہ مایوس آدمی ہی تنگ آمد بجنگ آمد کے مترادف ردعمل دیتا ہے، پاکستان ہمارا ملک ہے یہاں صرف عوام کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی قائم کرکے ہی ملک کو آگے لے جایا جاسکتا ہے، بس یہی واحد حل ہے، آجکل عدلیہ کا ایک بڑا حصّہ قانون کی حکمرانی کیلئے جنگ لڑرہا ہے اللہ تعالیٰ نے قوم پر لطف و کرم کیا تویہ جنگ عوام جیت جائیں گے، اس محاذ پر کامیابی ہی پاکستان کے مستقبل کا تعین کرسکے گی۔