تحریر: محمد رضا سید
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی و معاشی مرکز ہے جو پیپلزپارٹی کے 15 سالہ دور حکومت سے قبل کسی حد تک رہائش کے قابل شہروں میں شمار کیا جاتا تھا لیکن اب عالمی سطح پر کی گئی رینکنگ کے مطابق کراچی شہر رہائش کے اعتبار سے دنیا کے بدترین شہروں میں شمار ہوتا ہے مگر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ سندھ حکومت نے کراچی کے مسائل بڑی حد تک حل کردیئے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سندھ ایمرجنسی سروس ریسکیو 1122 کے ہائی وے آپریشنز کا افتتاح کیا، ریسکیو 1122 ہنگامی خدمات سرانجام دیتا ہے، مراد شاہ کا کہنا تھا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی، مراد علی شاہ نے کہا کہ قدرتی آفات سمیت دیگر حادثات میں ریسکیو کا اہم کردار ہے، ریسکیو عملہ ہی اس پروگرام کو کامیاب بنا سکتا ہے، ہائی وے آپریشنز سروس سے لوگوں کی مشکلات کم ہوں گی، انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت عوام کی خدمت کے لئے دن رات کوشاں ہے، صوبائی حکومت ہماری، میئر ہمارا ہے تو پھر ذمہ داری بھی ہماری ہے جب کہ کراچی کے مسائل بہت ہیں لیکن سندھ حکومت نے بڑی حد تک حل کر دیئے، ان کا کہنا تھا کہ حکومتی کیپسٹی بڑھانے کی ضرورت ہے، سندھ میں ریسکیو 1122 کی ضرورت پہلے سے تھی، ریسکیو 1122 کے مزید 16 سینٹرز بنائے گئے ہیں جب کہ ریسکیو اہلکاروں کو مناسب تربیت دی گئی ہے اور ہائی ویز اور کوسٹل ایریاز تک ریسکیو کی استعداد کار بڑھائیں گے، وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے پانی کی سپلائی اور ڈرینیج کی خاص ہدایات ہیں، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے مسائل بہت ہیں لیکن سندھ حکومت نے بڑی حد تک حل کر دیئے۔
سندھ میں برسراقتدار پیپلزپارٹی بڑی ڈھٹائی کیساتھ کیساتھ صوبے کی ترقی کا راگ الاپتی ہے جبکہ حقائق تو اس کے برعکس ہیں، کراچی سندھ صوبے کا دارالحکومت ہے یہاں کبھی بھی پیپلزپارٹی کو پذیرائی نہیں ملی ہے، سندھ اسمبلی ہو یا کراچی کے بلدیاتی ادارے پیپلزپارٹی کو ساکنان شہر قائد نے ہمیشہ مایوس کیا، یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ کراچی کے بلدیاتی اداروں پر ریاستی اداروں کیساتھ ملی بھگت اور سندھ حکومت کی طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کرلیا گیا کچھ یوں ہوا کہ ایم کیوایم نے ایک مقتدر ادارے کے حکم پر بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا، جس نے ساکنان شہر کو بہت زیادہ مایوس کیا اور لوگ ووٹ ڈالنے گھروں سے نہیں نکلے، کراچی کے بلدیاتی اداروں تحریک انصاف کا راستہ روکنے کیلئے طاقتور قوتوں نے منظم انتظامات کئے تھے، جماعت اسلامی کو اردو بولنے والوں کی نمائندگی دینے کیلئے سابقہ پالیسیوں کی فائلیں کھولی گئیں اور 1980 کی فلم دوبارہ چلادی گئی، جسکا تجزیہ کرنا ہو تو جماعت اسلامی کو پڑنے والے ووٹوں کا کے اعداد و شمار کا جائزہ لے لیں، مراد شاہ نے درست کہا کہ سندھ حکومت اور کراچی کے بلدیاتی اداروں پر اُن کی جماعت کا کنٹرول ہے لیکن یہ بات ہرگز درست نہیں کہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے 15 سالوں میں کراچی کے بنیادی مسائل بڑی حد تک حل کردیئے ہیں، کراچی کے مسائل پیپلزپارٹی کے پندرہ سالوں میں چار گنا بڑھ چکے ہیں اور صرف کراچی کا ماتم کرنا درست نہیں ہے دیہی سندھ میں عوام کو درپیش مسائل میں دس گنا اضافہ ہوا ہے، لاڑکانہ ایڈز کا شکار ہوا والا سب سے بڑا ڈویژن بن چکا ہے، یہاں صاف پانی میسر نہیں ہے جو ہپیٹائٹس میں اضافے کا سبب بنا ہوا ہے، سکھر میں نومولود بچے مختلف بیماریوں کیساتھ اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں اکثر علاقوں میں بچے ذہنی صحت کے حوالے سے عالمی اسٹینڈڈر پر پورا نہیں اُترتے، میرپور خاص ڈویژن کے مختلف تحصیلیں خوارک کی کمی کا شکار ہیں، دیہی سندھ میں خودکشیوں میں اضافہ تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے ہوا ہے، امن و امان کی صورتحال یہ ہے کہ پولیس کی سرپرستی میں مذہبی تشدد پسند عناصر ایک ڈاکٹر کو زندہ جلادیتے ہیں۔
کراچی میں کمانے کیلئے لوگ پورے پاکستان سے آتے ہیںیہی وجہ ہے کہ یہاں سے ٹیکس وصولی بھی زیادہ ہے اور سندھ کا اس میں حصّہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد بڑھ چکا ہے، یہ سارا پیسہ کہاں اور کس طرح خرچ کیا جارہا ہے، سندھ میں رشوت ستانی باقی صوبوں سے دوگنا زیادہ ہے کلرک سے افسر تک اور وزیر سے وزیراعلیٰ سب ہی اس تالاب میں برہنہ ہیں، کوئی صنعتکار یا اسٹیٹ ماسٹر بلاول ہاؤس کے اخراجات برداشت کرتا ہے تو کوئی پیپلزپارٹی کے ورکرز کو ایڈجسٹ کررہا ہے، مالی باقاعدگیوں کے حوالے سے ملک گیر سطح پر کمیشن بنایا جائے تو سندھ کے بعد پنجاب کا نمبر ہوگا ہپلا سندھ کا ہی ہوگا، سندھ سے ملتان میں داخل ہوتے ہی دونوں صوبوں کی ترقی کا فرق واضح ہوجاتا ہے، لاہور کا مقابلہ کراچی سے نہیں کیا جاسکتا، کراچی کی خستہ حال سڑکیں سندھ حکومت کی اس شہر سے وفاداری کو عیاں کرنے کیلئے کافی ہے، فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال، بہادر آباد اور پی سی ایچ ایس جیسے متمول علاقوں میں سفر کرکے خود وزیراعلیٰ سندھ مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ مسائل حل ہوئے یا مسائل بڑھے ہیں، پانی جیسی بنیادی ضرورت کو مہیا نہ کرنے والے مراد شاہ اس قسم کے بیانات دیکر ساکنان شہر قائد کے زخموں پر نمک پاشی نہیں کریں تو بہتر ہوگان