تحریر: محمد رضا سید
ایران نے منگل کے روز واضح کر دیا ہے کہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان جوہری مذاکرات کا اگلا دور شیڈول کے مطابق عمان ہی میں ہوگا۔ اس سے قبل بعض مغربی ذرائع نے اِن مذاکرات کو روم منتقل کیے جانے کی خبر دی تھی۔ اُدھر اطالوی وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے اوساکا کے دورے کے دوران نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری معاملے پر مذاکرات عالمی اہمیت کے حامل ہیں، اور اٹلی ہمیشہ کی طرح ایسے مذاکرات کی میزبانی کے لیے تیار ہے جن کے مثبت نتائج برآمد ہوں۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی “ارنا” کے مطابق ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے نہایت واضح الفاظ میں کہا کہ مذاکرات عمان ہی میں ہوں گے۔ دوسری جانب ڈچ وزیر خارجہ کیسپر ویلڈکیمپ نے لکسمبرگ میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ آئندہ مذاکرات روم میں ہوں گے۔
تہران میں ماہرین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکہ نے اٹلی سے کہا ہے کہ وہ ایران پر دباؤ ڈالے کہ جوہری معاملے پر ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات روم منتقل کیے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی حکام نے تاحال مذاکرات کے مقام کی تصدیق نہیں کی ہے۔
ایسے وقت میں، جب ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا اگلا دور شروع ہونے جا رہا ہے اور پہلے مرحلے کے مذاکرات پر دونوں فریق مطمئن بھی ہیں، تو مقام کی تبدیلی جیسے نان ایشو کو مسئلہ بنا کر غیر ضروری کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ اس طرزِ عمل سے ایران کے، امریکی انتظامیہ کے اخلاص سے متعلق موجود تحفظات کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ واشنگٹن جوہری معاملے کے حل میں سنجیدہ نہیں ہےیہی سبب ہے کہ ایران اور امریکہ دونوں جنگ کی تیاریوں میں بھی مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔
امریکہ خطے میں اپنی فوجی طاقت میں اضافہ اور مورچہ بندی کر رہا ہے،امریکی محکمہ جنگ، پینٹاگون، نے شام سے امریکی فوجیوں کو عراق میں اپنے زیرِ کنٹرول فوجی اڈوں پر منتقل کر دیا ہے، جو موجودہ حالات میں ایک غیر ضروری اور اشتعال انگیز اقدام سمجھا جا رہا ہے۔
دوسری طرف ایران نے بھی 2000 کلومیٹر تک مار کرنے والے اینٹی ریڈار خودکش ڈرون “آرش 2” کو جنگی میدان میں آزمانے کے بعد اپنی بحری اور بری افواج کے حوالے کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ قدم بھی غیر معمولی نوعیت کا حامل ہے۔ ایرانی زمینی افواج کے کمانڈر جنرل حیدری نے بتایا کہ ایران کے پاس اسٹریٹجک رینج والے ڈرونز اور 2000 کلومیٹر رینج تک مار کرنے والے ایسے ڈرونز موجود ہیں جو ریڈار پر دکھائی نہیں دیتے۔ جنرل حیدری نے شفق میزائلوں کی تفصیلات اور آرش 2 ڈرون کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا کہ آرش 2 ڈرون خاص طور پر حیفہ اور تل ابیب کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ یہ ایک منفرد صلاحیتوں کا حامل خودکش ڈرون ہے، جو ہدف پر پہنچ کر شدید دھماکہ کرتا ہے اور دشمن کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔
ایسی جنگی تیاریوں کے سائے میں فریقین کا مذاکرات کی میز پر بیٹھنا اس بات کا اظہار ہے کہ دونوں ممالک جنگ کی تلخ حقیقتوں سے بخوبی واقف ہیں۔ امریکہ نے مارچ 2025ء سے یمن پر سنگین حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، اس کے باوجود یمنی فورسز امریکی بحری جہازوں اور اسرائیل پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایران، فوجی اعتبار سے، یمن سے کہیں زیادہ طاقتور ملک ہے، اور اس کی افواج ممکنہ امریکی حملوں کا بھرپور جواب دینے کے لیے آمادہ نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں فریق فی الحال جنگی آپشن سے اجتناب برت رہے ہیں۔
جہاں تک ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے پہلے دور کا تعلق ہے تو مسقط کے سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان عدم اعتماد کی فضا قائم ہے۔ اس کی بنیاد 2018ء میں اُس وقت پڑی جب صدر ٹرمپ نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں، بشمول امریکہ، کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے کو یکطرفہ طور پر منسوخ کر دیا۔ اس کے بعد ایران نے اُسی ایٹمی معاہدے کی بنیاد پر اپنے جوہری پروگرام کو مزید آگے بڑھانا شروع کیا، اور اب ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران ایٹمی دھماکہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے یا اس کے بہت قریب پہنچ چکا ہے۔
یہ وہ صورتحال ہے جس میں امریکہ کے پاس آپشنز محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی لیے مذاکرات کے پہلے مرحلے کے بعد آنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ تہران سے ایٹمی دھماکہ نہ کرنے کی یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ ایران اس حوالے سے مشروط یقین دہانی دینے کے لیے آمادہ ہوسکتا ہے، کیونکہ ایران کی فیصلہ ساز قیادت کئی مرتبہ واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کو جائز نہیں سمجھتا، بشرطیکہ ملکی سلامتی کو خطرہ لاحق نہ ہو۔
ایران کا ایٹمی پروگرام اس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں سے واپسی ممکن نظر نہیں آتی۔ اہم ذرائع اس بات کا انکشاف کر رہے ہیں کہ امریکہ، عمان مذاکرات میں ایران سے اسرائیل کی سلامتی کے لیے ٹھوس یقین دہانی کا خواہاں ہے، کیونکہ ایران اب بھی اسرائیل کو ایک غاصب ریاست سمجھتا ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ فلسطین اسرائیل تنازعے کے سلسلے میں بیشتر عرب اور مسلم ممالک دو ریاستی حل پر قائل ہو چکے ہیں۔
سیٹلائٹ تصاویر سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ کا دوسرا طیارہ بردار بحری جہاز “یو ایس ایس کارل وِنسن” مذاکرات سے قبل مشرق وسطیٰ کے پانیوں میں پہنچ چکا ہے۔ یہ امریکی اقدام ایران پر دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا ایرانی قیادت اور فوج ہر سطح پر بھرپور مقابلہ کر رہی ہیں۔ روس اور چین نے بھی دوٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ ایران کے خلاف امریکی جنگی مہم جوئی امریکہ کو بہت مہنگی پڑے گی۔
ان حقائق کے پس منظر میں سابق صدر ٹرمپ کا یہ بیان بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو فوجی کارروائی کی قیادت اسرائیل کرے گا۔ اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ، جنگ سے گریز کرتے ہوئے، ایک معقول معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کرے گا، جس کی بنیاد 2015ء کے ایٹمی معاہدے پر استوار ہو سکتی ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے مذاکرات کی پیشرفت کی توثیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ “ہمیں مذاکرات کے حوالے سے نہ زیادہ پرامید ہونا چاہیے اور نہ ہی مایوس ہونا چاہیے۔” ان کا یہ بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ فریقین ایک ایسے معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں دونوں کو اپنی کامیابی نظر آئے، کیونکہ 2018ء میں ٹرمپ پہلے ہی ایک سنگین غلطی کا ارتکاب کر چکے ہیں۔
ہفتہ, اپریل 19, 2025
رجحان ساز
- چین کا بڑا اعلان ٹرمپ کے ٹیرف گیم پر توجہ نہیں دیگا، امریکی صدر ٹرمپ نے ٹیرف کو مذاق بنالیا
- مائنز اینڈ منرلز بل صوبوں کے وسائل پر سنگین حملہ ہے، جسے برداشت نہیں کرسکتے، فضل الرحمٰن
- بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ نےدھرنا ڈرامہ ختم کردیا بلوچ رہنما ماہ رنگ بلوچ کی رہا نہ ہوسکیں
- عمان مذاکرات کا مستقبل: ایران امریکہ دونوں ہی غیریقینی کیفیت کا شکار ہیں جنگ کا امکان معدوم
- امریکہ کیساتھ بلواسطہ مذاکرات سے زیادہ پُرامید ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر مایوس،آیت اللہ خامنہ ای
- مشرق وسطیٰ میں امن، استحکام اور خوشحالی کیلئے صدر ٹرمپ ایران سے ایٹمی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں
- صدر ڈونلڈ ٹرمپ دورہ سعودی عرب کے دوران ایٹمی ٹیکنالوجی متعلق معاہدے پر دستخط کریں گے
- امریکی تجارتی جنگ عقل کی سنگین خلاف ورزی ہے چین کا جوابی اقدام 125 فیصد ٹیرف عائد کردیا