پاکستان میں توانائی کے بڑھتے ہوئے بحران کے دوران ایران کے ساتھ ایک دہائی سے التوا کے شکار گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل درآمد کی بحث جاری ہے۔ ساتھ ہی یہ سوال بھی زیرِ بحث ہے کہ کیا اسلام آباد اس منصوبے پر امریکی تحفظات کے باوجود پابندیوں سے استثنیٰ حاصل کر پائے گا؟ یہ بحث ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب رواں ماہ عید کے بعد ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا دورۂ پاکستان متوقع ہے، اس بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ایران کے صدر کی اسلام آباد آمد کے موقع پر گیس پائپ لائن منصوبے پر باقاعدہ آغاز کیا جائیگا، اس سے قبل فروری میں پاکستان کی کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے اس منصوبے کے تحت ایران کے ساتھ سرحد سے لے کر بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر تک پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی تھی، پاکستان کے وزیرِ پیٹرولیم سینٹر مصدق ملک کہہ چکے ہیں کہ امریکی پابندیوں سے استثنیٰ مانگیں گے اور یہ کہ پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے میں پابندیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
تاہم حال ہی میں امریکی کانگریس میں بریفنگ کے دوران امریکی معاون وزیرِ خارجہ ڈونلڈ لو نے واضح کیا تھا کہ امریکہ اس پائپ لائن کی حمایت نہیں کرے گا، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اسلام آباد نے اس ضمن میں امریکی پابندیوں سے استثنیٰ کی کوئی درخواست نہیں دی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران سے توانائی درآمد کرنے کے لئے امریکی پابندیاں سب کے لئے یکساں نہیں ہیں، جو ممالک آگے بڑھ کر ایران سے گیس اور تیل حاصل کرنا چاہتے تھے ان میں سے بعض کو استثنیٰ دیا گیا ہے جس کی سب سے اہم مثال بھارت ہے، بین الاقوامی امور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کیلئے امریکہ سے کوئی مدد نہیں ملی ہے لہٰذا اب پاکستان کچھ مشکل فیصلے کر سکتا ہے، ان کے بقول اس بات کے آثار نظر آ رہے ہیں کہ پاکستان امریکہ کی مخالفت کے باوجود ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے معاملے پر آگے بڑھے گا۔
1 تبصرہ
پاکستان آنے کی زحمت نہ کریں گیس پائپ لائن نہیں بنائیں گے پاکستان والے اپنا وقت ضائع نہ کریں