امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی بعید از قیاس ہے، منگل کے روز،صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تجویز پیش کی کہ امریکہ غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھال لے اور تجویز پیش کی کہ 15 ماہ سے جاری اسرائیل اور حماس جنگ کے دوران تباہ شدہ ڈھانچے کو مسمار کرنے کے بعد اس علاقے کو دوبارہ تیار کیا جائے، انہوں نے اپنے پہلے کے موقف کا اعادہ کیا کہ فلسطینیوں کو پڑوسی ممالک میں منتقل کیا جانا چاہیے، جب اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے امریکی فوجیوں کی غزہ میں ممکنہ تعیناتی کے بارے میں سوال کیا گیا تو ٹرمپ نے کہا کہ وہ جو ضروری ہو گا وہ کریں گے، صدر ٹرمپ کے اس جواب کو غلط سمجھا گیا، اب امریکی وزیر دفاع نے اسکی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کسی فوجی مہم جوئی سے کنارہ کش ہونے کا فیصلہ کرچکی ہے
وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ غزہ میں امریکی فوجی مداخلت کے امکان کے بارے میں صدر کے ریمارکس کو واضح کرنے کے لئے فوکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ فوجی مہمات سے بہت فاصلہ کر چکا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ، قومی سلامتی کے حکام اور امریکی اتحادیوں کے درمیان مضبوط بات چیت کے بعد ہی اس طرح کے فیصلے کرسکتے ہیں جو ابتک نہیں ہوئی ہے، ہیگستھ نے کہا کہ اسرائیل حماس کے خلاف جنگ ختم کرنا اور یرغمالیوں کو واپس لانا چاہتا ہے اور امریکہ ایسا کرنے میں ان کی مدد کرے گا۔
اس ہفتے کے دوسرے دن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم جن کا عالمی فوجداری عدالت فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزام میں ریڈ وارنٹ نکال چکی ہے کو واشنگٹن میں خوش آمدید کہا اس دوران نیتن یاہو کو ایک بھاری بھرکم دوست کی حیثیت دینے سے عرب حکومتوں اور عوام میں تحفظات اور غصّہ پیدا ہوا، اس دوران ٹرمپ کی جانب سے غزہ کا اختیار امریکہ کے سپرد کرنے کا مطالبہ کرکے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا جبکہ عرب حکومتوں نے اس بیان کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ صدر ٹرمپ کو تنبیہ کی ہے کہ وہ عرب حکومتوں کی طرف سے بولنے سے گریز کریں۔