قطر امریکی دباؤ قبول نہیں کرسکا حماس کا سیاسی مرکز عراق منتقل ہونے جارہا ہے
تحریر: محمد رضا سید
قطر امریکی شرائط پر حماس کو جنگ بندی معاہدے کی قبولیت کیلئے دباؤ ڈالنے سے گریز کی پالیسی اختیار کرنا چاہتا ہے، امریکہ نے قطر سے کہا ہے کہ وہ حماس کو امریکہ کے تجویز کردہ جنگ بندی معاہدہ قبول کرنے کیلئے دباؤ پر مبنی حکمت عملیاختیار کرتے ہوئے اس مزاحمتی تنظیم کے سیاسی دفتر کو دوحہ میں دی گئی سہولتیں بتدریج واپس لینا شروع کردے، جس کے بعد حماس کی قیادت نے اپنا سیاسی دفتر قطر سے عراق منتقل کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز کردیا، عراقی حکومت نے حماس پر جنگ بندی قبول کرنےکیلئے امریکی اور قطری حکام کے دباؤ کی صورتحال کو پھنپتے ہوئے گزشتہ ماہ ہی حماس کو سیاسی دفتر عراق منتقل کرنے کی منظوری دیدی تھی جبکہ ایران نے بغداد میں حماس کے رہنماؤں، دفاتر اور عملے کے تمام اخراجات اور تحفظ کا ذمہ داری اُٹھانے کا فیصلہ کیا تھا، حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ نے عراق اور ایران کی حکومتی نمائندوں سے مذاکرات کے دوران اس حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ حماس امریکہ کی تجویز کردہ شرائط پر مبنی جنگ بندی کو قبول نہیں کرتی ہے تو قطر امریکی دباؤ کو قبول نہیں کرسکے گا اور حماس کو دوحہ میں اپنا سیاسی دفتر کو جزوی طور پر بند کرنا پڑے گا، جس کے نتیجے میں حماس کی سیاسی سرگرمیاں اور میڈیا تک رسائی محدود ہوسکتی ہے، سینئر عراقی رکن پارلیمنٹ اور مزاحمتی گروپ سے قریبی تعلق رکھنے والی ایک سیاسی شخصیت نے حماس کے سیاسی دفتر کی بغداد منتقلی کے فیصلے کی تصدیق کی ہے، واضح رہے گزشتہ ماہ اسماعیل ہنیہ اور عراقی وزیر اعظم محمد شیعہ السوڈانی کے درمیان اہم ملاقات ہوئی تھی جس میں حماس کے سیاسی دفتر کو بغداد منتقل کرنے کا اُصولی فیصلہ کیا گیا تھا۔
سینئر عراقی رکن پارلیمنٹ نے بتایا کرد اور سیکولر سنی جماعتیں خوفزدہ ہیں کہ بغداد حکومت کے اس فیصلے سے امریکہ کے ساتھ اختلافات بڑھ جائیں گے لیکن اتفاق رائے کی کمی کے باوجود حماس کی میزبانی کے حکومتی فیصلے کو واپس نہیں لیا جائے گا، حماس نے ابھی تک سیاسی دفتر کی بغداد منتقلی اور دفتری اُمور کی فعالیت کی تاریخ مقرر نہیں کی ہے تاہم یہ عمل جلد مکمل ہوجائے گا، انہوں نے کہا کہ حماس نے اس ماہ بغداد میں اپنے سینئر اہلکار محمد الحفی کی قیادت میں ایک وفد کو دفتری اُمور کی انجام دہی کیلئے بھیجا ہے، آنے والے ہفتوں میں بغداد میں حماس کا میڈیا دفتر فعال ہوجائیگا، عراقی حکومت نے اس تمام صورتحال پر تبصرے سے گریز کیا اور کہا عراقی حکومت اور عوام حماس اور مظلوم فلسطینیوں کیساتھ کھڑی ہے، خیال رہے غزہ میں جنگ بندی کیلئے امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی میں جاری مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، سینئر امریکی حکام نے حماس پر مذاکرات میں تعطل پیدا کرنے کا الزام عائد کیا ہے، صدر جو بائیڈن نے جنگ کے خاتمے کی جو شرائط پیش کی ہیں، وہ بادی النظر میں اسرائیل کو فائدہ پہنچانے کا وسیلہ بنیں گی، امریکی حمایت اور پشت پناہی کے نتیجے میں اسرائیلی جارحیت اور فلسطینی نسل کشی کے منصوبے کے نتیجے میں ابتک 37,500 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں بچوں اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے، اس ماہ کے شروع میں صدر بائیڈن کی جنگ بندی شرائط کو حماس کی جانب سے مؤثر طریقے سے مسترد کئے جانے کے بعد ثالثوں کے توسط سے حماس اور اسرائیل کے درمیان کوئی اہم رابطہ نہیں ہوا ہے، حماس نے واضح کردیا ہے کہ غزہ سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا اور مستقل جنگ بندی کی بنیادی نکات کو شرائط کا حصّہ بنائے بغیر وہ کسی بھی طرح سے جنگ بندی معاہدہ قبول نہیں کرئے گی، اسرائیل چاہتا ہے کہ غزہ کی پٹی پر حماس کی حکمرانی ختم کرکے اپنے تابع مہمل عناصر کو غزہ کی پٹی کا کنٹرول دے، جو فلسطینی اتھارٹی کی طرح طاقت کے ذریعے اسرائیل کے خلاف جہاد کا راستہ روک سکے، خیال رہے حماس نے 2007 سے غزہ کا کنٹرول سنبھالا ہوا ہے اور جس کے سیاسی رہنما 2012 سے قطر میں مقیم ہیں۔
حماس کا سیاسی دفتر اور قیادت عراق منتقل ہوتی ہے تو جنگ بندی کے مذاکرات میں اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں کیلئے مزید چیلنجز پیدا ہوجائیں گے کیونکہ حماس قطر کے اثر و رسوخ سے آزاد ہوکر اپنی شرائط پر اصرار کرئے گی، قطر جوکہ امریکہ کا مشرق وسطیٰ میں سب سے اہم اتحادی ملک ہے، حماس دراصل قطر کو سیاسی مسائل سے بچانا چاہتی ہے اور دوحہ میں بھی کسی نہ کسی شکل میں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتی ہے تاکہ ثالثوں کے ذریعے اسرائیل کیساتھ جنگ بندی معاہدہ کیلئے مذاکرات جاری رکھے جاسکیں، حماس کو یہ بھی توقع ہے کہ قطر جنگ کے بعد غزہ میں تعمیر نو کی کوششوں میں بڑے کردار ادا کرنے والوں میں شامل ہوگا، حماس نے اس سے قبل اپنا ہیڈ کوارٹر ترکی منتقل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی مگر ترک حکومت اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات اور ترکیہ میں اسرائیلی ایجنٹوں کی موجودگی نے حماس کو بغداد کے انتخاب کیلئے مائل کیا ہے، دوحہ جو واشنگٹن کا قریبی اتحادی اور مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ رکھنے والا ملک ہے، کئی سالوں سے غزہ کی پٹی میں حماس کی زیر قیادت حکومت کا سب سے بڑا مالی معاون رہا ہے جبکہ دوسری طرف قطر کے ایران کیساتھ بھی گرمجوشی پر مبنی تعلقات ہیں جو حماس کا سب سے بڑا مددگار ملک ہے، حماس کے سیاسی دفتر کی عراق منتقلی مزاحمتی تنظیم پر امریکی دباؤ کو کم کرسکے گی جبکہ امریکہ کیلئے موقع ہوگا کہ وہ اسرائیل کو مستقل جنگ بندی اور جارح افواج کے انخلاء پر آمادہ کرسکے جو مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ہے، غاصب اسرائیلی حکومت کی فصیلیں کمزور ہوچکی ہیں اور اس حقیقت سے اس کی سیاسی قیادت آگاہ ہے، جنگ کی طوالت اسرائیل کو دن بدن کمزور کرئے گی حماس ایک مزاحمتی تنظیم ہے جو اپنے اہداف کیلئے راستہ بناتی رہے گی خود اسرائیلی فوج نے اس بات کا ادراک کرلیا ہے کہ حماس ایک نظریہ ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا، اسرائیل لاحاصل ہدف کے پیچھے بھاگ بھاگ کے تھک جائے گا، یہ بات دوستوں اور دشمنوں دونوں کو سمجھنی چاہیے، اگر اس موقع پر سعودی عرب اور ترکیہ جیسے ممالک حماس کی مدد کریں تو تل ابیب پر بھی جلف فلسطین کا جھنڈا جلد گاڑھا جا سکتا ہے۔