تحریر : محمد رضا سید
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے افغانستان کے خلاف طاقت کے استعمال کو آخری حربہ قرار دیتے یوئے کہا ہے کہ پاکستان اپنے پڑوسی ملک افغانستان کیساتھ مسلح تصادم نہیں چاہتا، پاکستان کے دفتر خارجہ نے پیر 18 مارچ 2024ء کو اعلان کیا کہ پاکستان نے پیر کی صبح سرحد کے قریب افغانستان کی حدود میں دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کے خلاف فضائی کارروائی کی ہے، پاکستان کے اس حملے کے جواب میں افغانستان کی طالبان حکومت نے بھی پاکستان پر گولہ باری کی تھی، پاکستان نے رواں سال جنوری میں ایران کے علاقے سراوان پر بمباری کی اور دعویٰ کیا کہ اس حملے کے نتیجے میں بلوچ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جبکہ اس سے قبل ایران نے کالعدم جیش العدل کے پاکستان کے اندر ٹھکانوں پر میزائیل اور ڈرونز حملے کئے تھے اس صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا کہ پاکستان سمیت اس کے تینوں پڑوسی ممالک ایک دوسرے کے خلاف پراکسی وار میں ملوث ہیں، اس پراکسی وار کے نتیجے میں کم ازکم پاکستان اور افغانستان کو واضح طور پر شدید معاشی نقصان اُٹھانا پڑرہا ہے اور دونوں ملکوں کی عوام براہ راست متاثر ہورہی ہیں، پاکستان اور افغانستان جس خطے میں واقع ہیں وہاں کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے، عالمی بینک کے مطابق گزشتہ ایک سال میں پاکستانیوں کی غربت میں مزید پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے جو 2023ء 35 فیصد سے بڑھکر 40فیصد ہوچکی ہے، یہ صورتحال نارمل نہیں ہے بہت زیادہ تشویشناک ہےمعلوم نہیں اس بدترین صورتحال میں حکمران کس طرح عوام کے غیض و غصب سے محفوظ ہیں۔
جنگوں سے بدحال ملک افغانستان کی صورتحال پاکستان سے زیادہ بدتر ہے، عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق افغانستان میں غربت کی شرح 72 فیصد ہے، اس ملک میں ڈیڑھ کروڑ انسان خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہیں، غربت ہر دو میں سے ایک افغان کو متاثر کرتی ہے، یہ اعداد و شمار طالبان حکومت کے تیار کردہ ہیں لیکن وہاں اچھی حکمرانی کے ثمرات مستقبل میں دیکھنے کی اُمید رکھی جاسکتی ہے، جنگ و جدل انسانی بحران کو جنم دیتی ہے، خدا کا شکر ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت اِن حقائق کو پیش نظر رکھے ہوئے ہے، پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے غیرملکی میڈیا ہاؤس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے اس ماحول میں پاکستان کابل کی افغان عبوری حکومت کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ ہم اس طرح ساتھ نہیں چل سکتے ہیں، وزیر دفاع نے صد فیصد درست بات کی ہے، اسلام آباد نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی افغان طالبان حکومت کی جانب سے سرپرستی پر بڑے صبر اور تحمل کا اظہار کیا ہے، افغانستان کی سرزمین پر پاکستان مخالف قوم پرستوں اور پاکستانی طالبان کے درمیان اشتراک عمل کرایا گیا، افغان انٹیلی جنس آج بھی بلوچ قوم پرستوں سے تعلق رکھے ہوئے ہے، یہ اقدامات جان بوجھ کر پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والی بات ہے، افغان طالبان کو حق حاصل ہے کہ وہ ہندوستان سے اپنے تعلقات استوار کریں لیکن پاکستان کی دوستی کو قربان مت کریں، پاکستان نے کابل میں عبدالغنی حکومت کو بچانے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا ورنہ افغان فوج اس قدر جلدی تحلیل نہیں ہوتی اور طالبان پورے افغانستان کا کنٹرول حاصل نہیں کرسکتے تھے۔
افغانستان کو سمجھنا چاہیئے کہ پاکستان اُس کے مقابلے میں کہیں زیادہ افغانستان کو غیر مستحکم کرسکتا ہے، طالبان نئے دوست بناتے وقت پاکستان کی دوستی کو فراموش کریں گے تو خطے میں امن نہیں ہوسکے گا اور خطہ میں بدامنی اغیار کی خواہش ہے، 18 مارچ کی کشیدگی کے بعد دونوں ملکوں کی جانب سے بیک ڈور ڈپلومیسی کامیابی سے آگے بڑھی ہے، ایسی اطلاعات بھی گشت کررہی ہیں کہ ہندوستان افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرنے جارہی ہے، اس سے دہلی اور کابل کے تعلقات مستحکم ہونگے، ہندوستان کی خواہش فطری ہے کہ افغانستان میں دہلی کی جڑیں مضبوط ہوں، افغانستان معدنی ذخائر سے مالا مال ملک ہے ہندوستان وہ صلاحیت رکھتا ہے جو افغانستان کو اِن معدنیات سے فائدہ پہنچا سکتا ہے، ایران بھی افغانستان کی معدنیات پر نظریں جمائے ہوئے ہے اور اس حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان ایم او یوز پر دستخط ہورہے ہیں، پاکستان کا حق زیادہ ہے کہ وہ افغانستان کی معدنیات نکالے وہ اس دوڑ میں کہیں نظر نہیں آتا وجہ امریکہ کی ناراضگی ہے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی میں امریکی سازش کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، کہیں نہ کہیں ڈونلڈ لو کی سفارتکاری کی کارستانی ہے، پاکستان اور افغانستان کے سفارتی مراسم قائم ہیں، پاکستان کابل کی طالبان حکومت کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرلے البتہ افغانستان میں شفاف طریقہ کار سے وسیع البنیاد حکومت قائم نہیں ہوتی افغان طالبان کی اخلاقی حیثیت کو تسلیم نہ کیا جائے۔
پاکستان کے وزیر دفاع نے اپنے امریکی میڈیا ہاؤس کو انٹرویو دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اسلام آباد اس راہداری کو بند کرسکتا ہے جو اس نے افغانستان کو بھارت کے ساتھ تجارت کے لئے فراہم کی تھی، خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر کابل افغان سرزمین پر سرگرم پاکستان مخالف دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہا تو افغانستان سے یہ سہولت واپس لے لی جائے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر افغانستان ہمارے ساتھ دشمن جیسا سلوک کرتا ہے تو ہم انہیں تجارتی راہداری کیوں دیں؟خواجہ آصف کا یہ طرز تخاطب پاکستانی نہیں ہے، یہ امریکیوں کی زبان ہے جو اُن کے منہ میں چل رہی ہے، آگ پر پانی کے بجائے پیٹرول ڈالیں گے تو دونوں ملک اس میں جلیں گے، پاکستانی قیادت ہمیشہ کی طرح تحمل اور بردباری سے کام لے، تمام پڑوسیوں سے لڑ کر پاکستان کی مشکلات نہ بڑھائی جائیں، پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ سیاسی دانشمندی کا تقاضہ کررہی ہے اور وہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے قائدین میں دور دور تک نظر نہیں آتی ہے۔
1 تبصرہ
It is better for Afghanistan to stop sponsoring terrorism