تحریر: محمد رضا سید
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان کل رات گزشتہ چھ بیٹھکوں کے بعد بلآخر پاور شیرنگ کا معاہدہ ہوگیا،جس کے بعد اسمبلیوں کے اجلاس بلانے کیلئے سرگرمیاں شروع کی جارہی ہیں مگر ابھی الیکشن ڈرامے کی کافی قسطیں باقی ہیں، تحریک انصاف کو لال بتی کے پیچھے لگادیا گیا ہے کہ وہ قانونی عمل کے ذریعے حالیہ الیکشن میں ہونے والی ناانصافی کے مداوا کیلئے اُن کے پاس ہی جائیں جنھوں نے الیکشن سے تحریک انصاف کو باہر کیا تھا، جسکے نتیجے میں تحریک انصاف نے اپنے اُمیدواروں کو آزاد حیثیت سے کھڑا کیا، تحریک انصاف کے قائدین کا خیال ہے کہ قانونی عمل اختیار کرنے سےتحریک انصاف کو اُنکی جیتی ہوئی چند نشتیں مزید مل جائیں گی ، جس سے منتخب ایوانوں میں تحریک انصاف کی پوزیشن مضبوط ہوگی، مثال کے طور پر اسلام آباد کی تینوں نشتوں پر پی ٹی آئی کامیاب ہوئی ہے جو اُسے واپس مل جائیں گی، لاہور سے راجہ سلمان اکرم کی کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری کردیا جائے گا، تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی کی کم ازکم چار قومی اسمبلی کی نشتیں تحریک انصاف کو واپس کردیں جائیں گی جہاں فارم 47 کے ذریعے ایم کیوایم کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔
مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان پاور شیئرنگ معاہدے میں صدر کا عہدہ تو پیپلزپارٹی کو دیدیا گیا ہے مگر اسپیکر کا عہدہ مسلم لیگ(ن) نے اپنے پاس رکھا ہے، ایوان چلانے کیلئے مسلم لیگ(ن) کا یہ درست فیصلہ ہے، پیپلزپارٹی کو وزارتیں لینے پر آمادہ کرکے مسلم لیگ(ن) نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے، اب پیپلزپارٹی حکومت کے مزے کیساتھ ساتھعدم کارکردگی پر عوام کی ناراضگی بھی مول لے گی،اُدھر الیکشن کمیشن کے تیار کردہ نتائج نے ایم کیوایم کی بارگینگ پوزیشن ختم کردی ہے، ایم کیوایم کو وفاق میں جو ملے گا وہ اسے قبول نا پڑے گا، سندھ حکومت میں ایم کیوایم کیلئے دروازے فی الحال بند رکھے جائیں گے لیکن مسلم لیگ (ن) ایم کیوایم کو ہرگز نظر انداز نہیں کرئے گی وہ پیپلزپارٹی کیلئے ایم کیوایم کو ریمورٹ کنٹرول کے طور پر اپنے ساتھ رکھے گی، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی مخلوط حکومت کی بنیاد ایک دوسرے کو بلیک میل کرنے پر رہے گی اور اس میں ایم کیوایم اپنے لئے جگہ پیدا کرلے گی اور اس کا انہیں سب سے زیادہ تجربہ ہے۔
پاکستان کا بڑی حد تک سیاسی منظر نامہ واضح ہوتا نظر آرہا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ جو مخلوط حکومت بنائی جارہی ہے وہ اپنی حقیقت خود جانتی ہے، الیکشن کمشنر راجہ سلطان کے استعفے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے لیکن اِن کا استعفیٰ مسئلے کا حل نہیں ہے، اِن کے استعفے سے بحران ختم نہیں ہوگا،آج سپریم کورٹ میں ایک اہم پیشرفت ہوئی ہے، چیف جسٹس فائز عیسی کی زیر صدارت سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے الیکشن کالعدم قرار دینے کی بریگیڈیئر صاحب کی درخواست کی سماعت شروع کی تو صاحبِ درخواست حاضر نہ تھے، سپریم کورٹ نے بریگیڈیئر خان کی درخواست نمٹا تے ہوئے اُن پر جرمانہ عائد کردیا، جس سے یہ بات صاف ہوگئی کہ 8 فروری کوکرائے گئے الیکشن کو ہی تسلیم کرایا جائے گا اور اسمبلیوں کا اجلاس بلاکر حکومتیں تشکیل دی جائیں گی ، مدت کیا ہوگی اس بارے میں فی الحال حتمی تاریخ مہینوں یا سال کا نہیں بتایا جاسکتا لیکن یہ طے ہے کہ موجودہ الیکشن کے تحت وجود میں آنے والی حکومت یا اسمبلیاں اپنی مدت مکمل نہیں کرسکیں گی اور نئے انتخابات اس ملک کا مقدر ہونگے۔
راجہ سکندر کی سربراہی میں الیکشن کمیشن نے جس طرح کے انتخابات کرائے ہیں اُس میں سب سے زیادہ اخلاقی برتری پاکستان تحریک انصاف کو حاصل ہوئی ہے اور سب سے کم اخلاقی حیثیت مسلم لیگ(ن) کی ہے جو حکومت بنانے کیلئے بالاتر پوزیشن رکھتی ہے، کم اخلاقی حیثیت رکھنے والی حکومت سے کام چلانے والی مقتدرہ اپنے طریقے آزمائے گی، جو یقیناً پاکستان کیلئے اچھے ثابت نہیں ہوتے ہیں، جیسا کہ پاکستانی 1958ء سے دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے ایک اہم پیشرفت چین کی جانب سے پاکستان میں کرائے گئے الیکشن کے بارے میں خیر کے جذبات کا اظہار ہے، جو یقیناً دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف پاکستان پر پڑنے والے مغربی دباؤ کا موثر جواب ہے، ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر ملک کی سیاسی جماعتیں پاکستان کے وسیع تر مفاد میں الیکشن میں دھاندلی کو قبول کرکے آگے کا سفر طے کریں گی، اصلاح احوال اور الیکشن کمیشن کے احتساب کا راستہ بند ہوجائے گا اور یہ معلوم نہیں ہوسکے گا کہ الیکشن کمیشن نے قوم سے خیانت کرنے کا طوق کس طاقتور کے کہنے پر پہنا تھا اور پس پردہ ہاتھ بے نقاب نہیں ہوسکے گا، تحریک انصاف کے رہنماؤں کو عدالتوں سے ریلیف ملنا شروع ہوچکا ہے، نیند کی گولیاں دیکر سلائے گئے قانون نے انگڑایاں لینا شروع کردیں ہیں۔
الیکشن کمیشن پر اب دباؤ کم ہوجائیگا اور راجہ سکندر اپنی آئینی مدت پوری کرکے رخصت ہوجائیں گے حالانکہ اِن کے استعفے سے پاکستان میں گزشتہ دو سالوں سے پیدا شدہ بحران ختم ہونے والا نہیں تھا کیونکہ ماسٹر مائینڈ دوسرے تھے اور اُن کو قانون کے سامنے پیش کرنے کی جرات کسی کی نہیں ہے، سپریم کورٹ آف پاکستان جب ایک ریٹائر بریگیڈیئر کو عدالت میں پیش ہونے مجبور نہیں کرسکی تو بڑے صاحب تو بڑے صاحب ہیں لیکن قوم مایوس نہ ہو جدو جہد جاری رکھے گی تو آزادی کی نوید ضرور ملے گی۔