پاکستان کے لئے سات ارب ڈالر قرض پروگرام کی منظوری حکومت کیلئے ایک بڑی کامیابی تو ہوسلتی ہے مگر حقائق اور ملکی صورتحال کسی اور حقیقت کی طرف نشاندہی کررہے ہیں، ملکی اور بین الاقوامی ماہرینِ معاشیات پاکستان کو درپیش سیاسی اور معاشی چیلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی انتہائی غیر مقبول حکومت جو مبینہ طور پر انتخابی نتائج میں ہیر پھیر کرانے کے بعد برسراقتدار لائی گئی ہے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط پر عملدرآمد نہیں کرسکے گی، آئی ایم ایف نے پاکستان کو سات ارب ڈالر قرض پروگرام دینے کی منظوری کرنے کی نوید سنائی ہے مگر 37 ماہ کے پروگرام کے تحت یہ رقم قسط وار پاکستان کو دی جائے گی اور ہر قسط سے قبل آئی ایم ایف کا جائزہ مشن کی رپورٹ دو دھاری تلوار کی طرح اسلام آباد پر لٹکتی رہے گی، خیال رہے کہ پاکستان کو مستقبل قریب میں بیرونی قرضوں اور دیگر ادائیگیوں کیلئے آئی ایم ایف کا قرضہ بڑی اہمیت رکھتا ہے، معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پروگرام کی سخت شرائط سے مہنگائی بڑھے گی جو ملک میں سماجی بے چینی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے، اس کے علاوہ حکومت کے کمزور سیاسی مینڈیٹ کے باعث معیشت کے اصلاحاتی پروگرام کی تکمیل پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
آئی ایم ایف کے جاری کردہ بیان کے مطابق یہ معاہدہ اس کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے، قرضے کی پہلی قسط ملنے سے پہلے پاکستان کو متعدد سخت وعدے پورے کرنے ہوں گے اور مالیاتی یقین دہانیاں بھی پوری کرنا ہوں گی، آئی ایم ایف نے پاکستان کے دوست ممالک چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پیرس کلب کے قرضوں میں رعایت حاصل کرنے کی شرط عائد کی ہے، اس وقت پاکستان پر سب سے زیادہ قرض چین کا ہے جو مجموعی قرض کا تقریباً 30 فیصد ہے، پاکستان میں توانائی سمیت دیگر شعبوں میں کی جانے والی چین کی سرمایہ کاری پر قرض کی رقوم اب واپس بھی کرنی ہیں، اس بارے میں یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ پاکستان کے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب اگلے ہفتے چین کا دورہ کرنے والے ہیں، اطلاعات ہیں کہ اس دورے میں توانائی سمیت دیگر شعبوں میں پاکستان کے حاصل کردہ قرضوں کی ری شیڈولنگ اور ری اسٹرکچرنگ پر بات کی جائے گی، تاہم سابق ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک مرتضیٰ سید اس سے اتفاق نہیں کرتے، بیجنگ میں قائم ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) کے سینئر اہلکار اور پاکستان کے سابق ڈپٹی گورنر مرتضیٰ سید نے بتایا ہے پاکستان چین کے مقابلے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور پیرس کلب جیسے کثیر الجہتی ترقیاتی بینکوں کا زیادہ مقروض ہے، قرضوں کے اس طرح کے دباؤ کا سامنا کرنے والے دوسرے ممالک سے پاکستان کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے دلیل دی کہ ہم اس کشتی میں سوار نہیں ہیں، جس میں دیگر ممالک سوار ہیں اور جن کا چین اہم قرض دہندہ ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق قائم مقام گورنر مرتضیٰ سید نے ایک ٹویٹ میں آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ (ایس ایل اے) کے لئے پاکستان کو اپنے ترقیاتی اور دو طرفہ شراکت داروں سے مالیاتی یقین دہانیوں کی ضرورت ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ 7 ارب ڈالر کا معاہدہ پاکستان کو انتہائی ضروری ریلیف فراہم کرے گا، یہ جشن منانے کی بات نہیں ہے، معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل اس سے حل نہیں ہوسکتے، ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا، وفاقی اخراجات اور سرکاری و سیاسی اشرافیہ کیلئے مختص مراعات کو فی الفور ختم کرنا ہوگا، مرتضیٰ سید کا کہنا ہے کہ اسٹاف لیول سطح پر آئی ایم ایف اور پاکستان کے معاشی مینیجرز کے درمیان اتفاق رائے پر مبنی معاہدہ نامکمل ہے کیونکہ پاکستان کو اپنے تمام بڑے بیرونی قرض دہندگان بشمول کثیرالجہتی ترقیاتی بینک، بانڈ ہولڈرز، پیرس کلب اور چین سے قرضوں میں ریلیف کی ضرورت ہے، چین کے ساتھ پاکستان کا ایکسپوژر نسبتاً کم ہے، اس لئے یہ ہمارے قرض کے مسائل خود حل نہیں کر سکتا، چین بڑی تصویر کا صرف ایک حصہ ہے، واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیائی امور کے اسکالر مائیکل کوگل مین نے اس رائے کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے گذشتہ سال کے دوران مشکل سے حاصل کردہ میکرو اکنامک استحکام کی تعریف کی ہے، انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اسلام آباد کے لئے جمعہ کا آغاز سپریم کورٹ کی طرف سے ایک دھچکے سے ہوا اور ایک اہم عطیہ دہندہ کی طرف سے فراہم کردہ فروغ کے ساتھ ختم ہوا، انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اکبر ایس زیدی نے لکھا کہ آئی ایم ایف پیکج جشن منانے کے لئے نہیں ہے کیونکہ یہ ہماری ناکامیوں کا اعتراف ہے، ہم بار بار آئی ایم ایف کے پاس جا کر مسلسل ناکام ہو رہے ہیں۔