پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال نے ہفتے کے روز کہا کہ پاکستان چین اور سعودی عرب سے قرضے نہیں بلکہ تجارت چاہتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چین اور سعودی عرب نے پاکستان کو مزید قرضے جاری کرنے سے انکار کردیا ہے، سعودی عرب نے پاکستانی حکام پر واضح کردیا ہے کہ وہ قرض دینے کے بجائے بلوچستان کے سندک منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں، سعودی عرب نے سندک منصوبے میں 15 فیصد سیئر پاکستان سے طلب کئے ہیں لکین یہ معاملہ پیچیدہ ہونے کے باعث سعودی مانگ پوری کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں، احسن اقبال کے بقول ان دونوں ممالک نے ضرورت کے وقت پاکستان کی مسلسل غیر مشروط مدد کی ہے، آئی ایم ایف سے بات چیت جاری ہے جلد معاہدہ ہونے کا امکان ہے، حکومت کو اس ضمن میں جن مشکلات کا سامنا ہے اُسے حل کرلیا جائیگا، لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ نواز شریف کی قیادت میں ہم نے پاکستان کی معیشت کو دوبارہ پٹری پر ڈال دیا ہے، ایس آئی ایف سی کے ذریعے چار ممالک نے پاکستان میں 27 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے لئے فنڈز مختص کئے ہیں، جنہیں اگلے دو سے تین سالوں میں معیشت میں شامل کر دیا جائے گا۔
اس موقع پر سیکرٹری جنرل انسٹی ٹیوشن آف انجینئرز پاکستان انجینئر امیر ضمیر احمد خان اور انجینئر عثمان فاروق بھی موجود تھے، احسن اقبال نے کہا کہ یہ وقت لانگ مارچ یا افراتفری پھیلانے کا نہیں ہے، توانائی کے بحران کے حوالے سے احسن اقبال نے یقین دلایا کہ ایک سال میں اس پر قابو پالیا جائے گا، مزید برآں مہنگائی کی شرح کو سال کے آخر تک سنگل ڈیجیٹ پر لایا جائے گا، انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وزیر داخلہ کو انجینئرز کونسل کے انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کی ہدایت کردی گئی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ میں الیکشن میں اپنا ووٹ بھی نہیں ڈال سکا، احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو بحال کرنے کی کوشش میں وزیر اعظم شہباز شریف قومی اقتصادی اہداف کا خاکہ پیش کرنے والے ایک جامع پانچ سالہ منصوبے کا اعلان کرنے کے لئے تیار ہیں، احسن اقبال کے مطابق اس منصوبے کا مقصد توانائی کے بحران، ٹیکس چوری اور عدم استحکام جیسے اہم مسائل کو حل کرنا ہے، احسن اقبال نے زور دیا کہ پاکستان کو ترقی کے حصول کے لئے افراتفری اور عدم استحکام سے گریز کرنا چاہیے، امن کے بغیر سرمایہ کاری نہیں ہوگی اور توانائی کا بحران برقرار رہے گا، انہوں نے تاجروں پر زور دیا کہ وہ ٹیکس ادا کرکے ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں، اس بات کو اجاگر کرتے ہوئے کہ پاکستان کے 70 فیصد ٹیکس صنعتی شعبہ برداشت کرتا ہے جبکہ سروس سیکٹر کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔