امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی جماعت کی جانب سے صدارتی انتخاب لڑنے کے لئے نامزدگی حاصل کر لی ہے جس کے بعد ٹرمپ پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر امریکی صدر جو بائیڈن کے مدِ مقابل ہوں گے، منگل کو دونوں رہنماؤں نے ریاست جارجیا، مسی سپی اور واشنگٹن میں ہونے والی پرائمریز میں کامیابی حاصل کی، صدر بائیڈن کو ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی نامزدگی کے حصول کے لئے مطلوبہ ڈیلیگیٹس 1968 کا ہدف حاصل کرنے کے لئے مزید 102 ڈیلیگیٹس کی ضرورت تھی، اسی طرح ٹرمپ کو ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی نامزدگی کے لئے 1215 ڈیلیگیٹس کا ہدف حاصل کرنے کے لئے ڈیلیگیٹس کی ضرورت تھی، دونوں رہنماؤں نے صدارتی نامزدگی کے لئے مطلوبہ ڈیلیگیٹس کی تعداد حاصل کر لی ہے جس کے بعد پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں اب یہ دونوں رہنما مدِ مقابل ہوں گے، ری پبلکن پارٹی کا کنونشن جولائی میں جب کہ ڈیموکریٹک پارٹی کا کنونشن اگست میں ہونا ہے، صدارتی نامزدگی کی مہم کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار صدر بائیڈن کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا البتہ ٹرمپ نے ری پبلکن صدارتی نامزدگی کے لئے پرائمریز میں اقوامِ متحدہ میں سابق امریکی سفیر نکی ہیلی، ریاست فلوریڈا کے گورنر ڈی سینٹس اور سابق نائب صدر مائیک پینس کو شکست دی ہے، باضابطہ طور پر صدارتی نامزدگی حاصل کرنے سے قبل ہی صدر بائیڈن اور سابق صدر ٹرمپ انتخابی مہم شروع کردی ہے۔
صدارتی انتخابات کے دوران 81 سالہ صدر جو بائیڈن کو کئی طرح کے داخلی اور خارجی چیلنجوں کا سامنا ہے، صدر بائیڈن کی اسرائیل کی ضرورت سے زیادہ حمایت بیشتر امریکیوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے، اِن میں یقیناً اکثریت مسلمانوں کی ہے جو روایتی طور پر ڈیموکریٹس ہیں اور وہ اس لئے ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی انسانی حقوق اور جنگی جرائم کے خلاف واضح موقف اختیار کرتی ہے لیکن اکتوبر 7 کے بعد جس طرح جو بائیڈن نے اسرائیل کے جنگی جرائم اور حقوق انسانی کو نظرانداز کیا ہے امریکی ڈیموکریٹس کی اچھی خاصی تعداد انہیں ووٹ دینے سے گریز کرئے گی، اقوام متحدہ کے ادارے بتارہے ہیں کہ غزہ میں خواراک کی سپلائی کو یقینی نہیں بنایا گیا تو مئی 2024ء میں غزہ کے بے گھر فلسطینی کی بڑی تعداد قحط سے دوچار ہوکر مرنے لگے گی، اس صورت حال کا امریکی صدراتی انتخاب کی سیاست پر خاصہ منفی اثر پڑے گااور صدر جو بائیڈن پر تنقید بڑھے گی جوکہ ڈیموکریٹس کی نفسیات پر گہرے اثرات پیدا کرکے بائیڈن کو منتخب کرانے کیلئے ووٹ کیلئے سو بار سوچے گی، صدر بائیڈن خود کو جمہوریت کے محافظ کے طور پر پیش کرتے ہیں، شہری آزادیوں اور جمہوری اصولوں کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں لیکن اُن کی پہلی صدارت کا پورا دور طرزعمل کے لحاظ سے کافی حد تک مختلف رہا۔
جو بائیڈن کے وائٹ ہاؤس نے لبنان اور پاکستان میں جمہوریت کو اچھا خاصہ نقصان پہنچایا ہے، پاکستان میں رجیم چیج کراکے 60 کی دہائی کی امریکی پالیسی کو زندہ کیا، پاکستان میں مارشل لاء تو نافذ نہیں ہوسکا لیکن پاکستان میں ابھی تک مارشل لاء طرز پر حکومت چلائی جارہی ہے چلایا جارہا ہے، پاکستانی عوام کے مقبول لیڈر کو جیل میں قید کیا ہوا ہے، اُسکی پارٹی تحریک انصاف کو الیکشن لڑنے سے روکا گیا، ہر طرح کی پابندی کے باوجود جب عمران خان الیکشن جیت گئے تو راتوں رات دھاندلی کے ذریعے اُن کے مینڈیٹ کو مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی میں تقسیم کردیا گیا اور یہ سب کچھ بائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں ہونے کے باوجود ہوا اور وہ اپنے جمہوریت پسند ہونے کے دعوے کو سچا ثابت نہ کرسکے، پاکستانی نژاد امریکی بائیڈن کے اِن دو چہروں کو ڈیموکریٹس ووٹرز کے سامنے ضرور لائیں گے، پاکستانیوں کو امریکی سیاست میں کردار بڑھانا چاہیئے امریکی صدارتی الیکشن اس کیلئے اچھا موقع ہے، صدر جو بائیڈن مشرق وسطیٰ میں امریکہ کیلئے پُرامن ماحول پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں، ایران کیساتھ 2015ء کے جوہری معاہدے پر عمل درآمد میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے مذاکرات تو شروع کئے مگر انہیں منطقی انجام تک پہنچانے میں ناکام رہے اسی طرح وہ مقبوضہ فلسطین میں یہودی آبادکاری کو اپنے اتحادی ملک اسرائیل پر دباؤ ڈال کر رکوانے میں بھی ناکام ہوئے اور دو ریاستی حل کیلئے بائیڈن اپنے دور صدارت میں پیشرفت نہیں کرسکے، جبکہ بائیڈن سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بھی وہ گرمجوشی پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں جو ٹرمپ دور حکومت میں تھی۔
بیشتر رائے عامہ کے ابتدائی جائزوں کے مطابق ٹرمپ کو بائیڈن پر معمولی سی سبقت حاصل ہے، دوسری جانب ٹرمپ لی رنگین مزاجی اور قانون کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے کو غیر معمولی چار مقدمات کا سامنا ہے، ان مقدمات میں سے ایک مقدمے کا ٹرائل 25 مارچ سے شروع ہونا ہے، ٹرمپ کے خلاف دیگر تین مقدمات کی سماعت صدارتی انتخابات سے قبل ہوگی یا نہیں، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ بعض ووٹرز کا سرویز میں کہنا تھا کہ اگر ٹرمپ کسی بھی الزام میں مجرم ٹھہرائے گئے تو وہ انہیں ووٹ نہیں دیں گے، ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں پچھلی صدارتی مدت کی پالیسیوں کو بحال کرنے اور موجودہ انتظامیہ کی ناکامیوں کو دور کرنے کا وعدہ کررہے ہیں، جس کے نتیجہ میں امریکہ اور دنیا کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی منظرنامے پر نمایاں تبدیلیوں کا احساس کیا جاسکے گا، واضح رہے کہ امریکہ کے صدر کا انتخاب براہِ راست امریکی ووٹر نہیں کرتے بلکہ صدر کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے کیا جاتا ہے یعنی امریکہ کی تمام 50 ریاستوں میں صدارتی انتخابات کے روز امریکی ووٹرز الیکٹورل کالج کے ارکان کو منتخب کرتے ہیں جس کے بعد یہی ارکان صدر کے انتخاب کے لئے ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔