کراچی کے حلقےاین اے 230 اس وجہ سے اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ اس نشت پر تحریک انصاف کے اُمیدوار مسرور علی اور پیپلزپارٹی کے اُمیدوار آغا رفیع الدن کے درمیان کانٹے کے مقابلے کا امکان ہے، اس حلقے میں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر مظفر علی شجرہ ایک اہم اُمیدوار ہیں جنکا اس حلقے میں قابل ذکر ووٹ بینک موجود ہے، مظفر شجرہ 2019 تک پیپلزپارٹی میں شامل تھے اور 2013ء سے وہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت میں بحیثت مشیر انٹی کرپشن رہے تاہم آصف زرداری اور بلاول نے انہیں کرپشن کے الزامات کے بعد غیر فعال کردیا تھا اور موجودہ الیکشن وہ مسلم لیگ(ن) کی ٹکٹ پر لڑرہے ہیں ھالانکہ مظفر شجرہ پیپلزپارٹی کراچی کے صدر کے منصب پر بھی فائز رہے ہیں، اس حلقے سے انتخاب لڑنے والے مجموعی اُمیدواروں کی تعداد 25 ہے، جس میں پاکستان راہ حق پارٹی کے اُمیدوار اورنگزیب فاروقی بھی شامل ہیں، 2018ء کے الیکشن میں انہیں اسی حلقے سے 19463ووٹ ملے تھے جبکہ پیپلزپارٹی کے اُمیدوار آغا رفیع اللہ 29598 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے تھے جبکہ اسی حلقے سے تحریک انصاف کے اُمیدوار کو 16495 اور مسلم لیگ(ن) کے اُمیدوار 14020 ووٹ حاصل ہوئے تھے،لیکن 2022ء میں اس حلقے کو تبدیل کیا گیا ہے، تبدیل شدہ حلقے میں شامل علاقوں اور یہاں موجود لسانی اور مذہبی اکائیوں کا جائزہ لیا جائے تو اُردو بولنے والوں والے ووٹرز کی تعداد نہایت کم ہے، یہاں پشتون اور بلوچ قومیتوں کے ووٹرز سب سے زیادہ ہیں، جس کے بعد سندھی، پنجابی اور سرائیکی ووٹرز قابل ذکر ہیں۔
اس حلقے کے اکثر علاقے پسماندہ ہیں لوگ عمومی طور پر ناراض نظر آتے ہیں لیکن اپنی روایتی پارٹیوں اور اُمیدواروں سے وابستگی کی وجہ سے الیکشن رزلت پر زیادہ فرق نہیں پڑتا بلوچ اور سندھ ووٹرز زیادہ تر پیپلزپارٹی سے وابستہ ہیں، پشتون اور اردو بولنے والے تحریک انصاف کو سپورٹ کررہے ہیں، سرائیکی اور کسی حد تک اُردو اور پنجابی ووٹرز کی قابل ذکر تعداد کالعدم سپاہ صحابہ کے سیاسی ونگ پاکستان راہ حق پارٹی سے ہمدردی رکھتی ہے، الیکشن 2024ء جس حالات میں ہونے جارہے ہیں اس میں اس حلقے میں تحریک انصاف کی پوزیشن مستحکم ہے تاہم تمام تر سروے اس حلقے سے آغا رفیع اللہ کی کامیابی کی نوید سنا رہے ہیں۔