یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے ساتھ جنگ بندی پر براہ راست بات چیت کے لئے تیار ہیں لیکن دوسرے شراکت داروں کو بھی ان مذاکرات میں موجود ہونا چاہیے، زیلنسکی نے یہ بات برطانوی صحافی پیئرز مورگن کے ساتھ انٹرویو کے دوران کہی، زیلنسکی پوٹن کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہوگئے ہیں اگر یہ واحد سیٹ اپ ہے جس میں ہم یوکرین کے شہریوں کو امن دے سکتے ہیں، زیلنسکی روسی وفد کے ساتھ اکیلے ایک کمرے میں سفارتی حل تلاش کرنے کا نقطہ نظر سے دستبردار ہوگئے ہیں، خیال رہے کہ کیف کی جانب سے معاہدوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکامی اور نیٹو فوجی اتحاد میں شمولیت پر آمادگی کے بعد روس نے 24 فروری 2022 کو یوکرین میں اپنی فوج داخل کردی، جرمنی اور فرانس کی ثالثی میں پروٹوکول پر پہلی بار 2014 میں دستخط کیے گئے تھے۔
یوکرین کے سابق صدر پیوٹر پوروشینکو نے کہا ہے کہ کیف کا بنیادی مقصد وقت حاصل کرنا ہے تاکہ وہ امریکہ کی حمایت سے مسلح افواج کو طاقتور بناسکے، روس نے یوکرین کے ساتھ نیٹو کے فوجی تعاون کو بھی موجودہ تنازعے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک قرار دیا ہے، 2022ء کے اواخر سے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اپنے نام نہاد امن فارمولے کو فروغ دے رہے ہیں، جس میں روس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ کیف کے دعویٰ کردہ تمام علاقوں سے دستبردار ہو جائے اور معاوضہ ادا کرے اور جنگی جرائم کے ٹریبونل کی تشکیل دے، روسی حکام نے زیلنسکی کے منصوبے کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ماسکو سفارتی حل کے لئے تیار ہے۔
اگرچہ امریکی صدر نے یوکرین میں جنگ ختم کرنے کی اپنی خواہش کو کبھی نہیں چھپایا لیکن وہ اپنے ذاتی مفادات کو نظر انداز نہیں کرتے، ہم یوکرین کے ساتھ ایک معاہدہ کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے تحت وہ اپنی نایاب زمینیں اور دیگر چیزیں امریکہ کو فراہم کریں گے جو امریکہ نے یوکرین کی جنگ کیلئے اُسے مالی اور فوجی امداد دی ہے، دوسری طرف صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اپنے ٹیلیگرام پیج پر کہا کہ یوکرین نے بدھ کے روز روس کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ کیا جس میں اس کے 150 جنگجو وطن واپس لوٹ رہے تھے، جن میں سے بہت سے یوکرین کے جھنڈوں میں لپٹے ہوئے ہیں، بسوں سے اترتے ہیں اور اپنے پیاروں کے ساتھ ایسے مقام پر ملتے ہیں جس کا سیکورٹی وجوہات کی بنا پر انکشاف نہیں کیا گیا تھا۔