پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی اخبار ڈیلی ڈان نے اتوار کو ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ امیر حسین عبداللہ یان سمیت اعلیٰ حکام کی المناک فضائی حادثے میں موت پر خصوصی اداریہ تحریر کیا جس میں مرحوم ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دور صدارت کو زیر بحث لایا گیا، اداریہ میں بتایا گیا کہ اِن کا دور حکومت گزشتہ آٹھ ماہ سے بیرونی محاذ پر تہران اسرائیل کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جنگ میں گزر جس میں صہیونی حکومت کی غزہ میں وحشیانہ کارروائیوں نے تنازع میں ایران کلیدی کردار ادا کیا، تاہم یہ امکان کم ہے کہ ایران میں طاقت کا خلا پیدا ہو کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عبوری صدر نے عہدہ سنبھال لیا ہے جبکہ آئندہ 50 روز میں انتخابات اعلان کیا جا چکا ہے، مرحوم صدر کو بیرونی محاذ پر ایک بڑی کامیابی سعودی عرب سے تعلقات کی بحالی تھا، جس میں چین نے اہم کردار ادا کیا تھا، مرحوم ایرانی صدر کی خارجہ پالیسی کا سب سے مشکل دور اس وقت آیا جب گزشتہ ماہ کے اوائل میں اسرائیل نے شام کے شہر دمشق میں ایران کے سفارتخانے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایران پاسدارانِ انقلاب کے اہم عسکری رہنما ہلاک ہوئے، اس حملے کے جواب میں تہران نے دو ہفتے بعد اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملہ کیا، یہ ایک ایسا حملہ تھا جس کی مثال تاریخ میں ہمیں نہیں ملتی، جس نے اسرائیل سمیت مغربی ملکوں کو ہلا کر رکھ دیا جنھیں ملکر اسرائیل کا دفاع کرنا پڑا۔
اداریہ میں پاکستان کے حوالے سے لکھا گیا کہ مرحوم صدر ابراہیم رئیسی کی نگرانی میں دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے کوششیں کی گئیں، جنوری میں دونوں ممالک نے مبینہ طور پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی پر ایک دوسرے کی سرزمین پر میزائل داغے لیکن گزشتہ ماہ مرحوم ایرانی صدر کے دورہِ پاکستان نے اشارہ دیا کہ تہران پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات چاہتا ہے، امید ہے کہ اگلے ایرانی صدر بھی اسی سمت میں میں اقدامات لیں گے، اداریہ میں کہا گیا کہ ایران کے جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے تہران میں اقتدار کی منتقلی کو دنیا قریب سے دیکھے گی، اگرچہ کچھ مغربی مبصرین ایران کے نظام کو سپریم لیڈر کے ماتحت ایک آمرانہ نظام قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت اس سے کئی زیادہ پیچیدہ ہے، یہ درست ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر کو ریاستی پالیسیوں میں ویٹو کا اختیار حاصل ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ صدر اور اقتدار کے دیگر مراکز کا کوئی اثرورسوخ نہیں، ایران کے نئے صدر کو داخلی محاذ پر اقتصادی پریشانیوں اور سیاسی تفریق کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ اس وقت ایک خطرناک اور متزلزل صورت حال سے دوچار ہے جس کی بنیادی وجہ غزہ میں اسرائیل کا وحشیانہ جبر ہے، خطے کی حرکیات میں ایران کا متحرک کردار ہے کیونکہ وہ حماس، حزب اللہ اور اسرائیل میں لڑنے والے دیگر مسلح گروہوں کی کھلی حمایت کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب سب نظریں اس جانب ہیں کہ اگلے ایرانی صدر اور اسلامی جموریہ ایران کی اسٹیبلشمنٹ، اسرائیل کی مسلسل اشتعال انگیزی کا جواب کیا دے گی۔