تحریر: محمد رضا سید
پاکستان کے عوام سیاسی اور معاشی ناانصافی پر مبنی جابرانہ نظام کے خلاف بتدریج اپنے غصّے کا اظہار کررہے ہیں، بجلی کی قیمتوں کی افزائش نے آزاد جموں کشمیر میں اور گلگت بلتستان میں بغاوت جسے حالات پیدا کئے، پاکستان فوج کا تحمل تھا جس نے آزاد کشمیر میں کسی بڑے سانحے کو ہونے سے روک لیا تاہم فوج کے سامنے لڑنے کی غرض سے سامنے آنے والی عوام کسی لحاظ کے بغیر بازیبا نعرے لگاتی رہی، اس وقت فوجی مقتدرہ کیلئے کڑا وقت ہے وہ ایک ایسی حکومت کو سپورٹ کررہی ہے جو الیکشن کمیشن کے بنائے گئے فارم 47 کے تحت برسراقتدار آئی ہے، الیکشن میں بڑے پیمانے میں ہیر پھیر کو پاکستانی لوگوں کے علاوہ عالمی سطح پر بھی نوٹس میں لایا گیا، یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی عوام نے فروری 2024ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو بھاری مینڈیٹ دیا تھا مگر فوجی مقتدرہ نے مسترد کی گئی سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن کیساتھ ملکر ایسی ٹیکنکل دھاندلی کی جسے کسی بھی عدالتی کارروائی چلانے کی صورت سے منصفانہ قرار نہیں دیا جاسکتا، عوامی مینڈیٹ نہ رکھنے والی حکومت کو چونکہ عوامی حمایت حاصل نہیں ہے لہذا اُس کے اقدامات بھی عوام دوستانہ نہیں ہیں بلکہ موجودہ حکومت فوجی مقتدرہ کی خوشنودی کیلئے عوامی عہدے فوجی مقتدرہ کے پسندیدہ جنرلز کو دے رہی ہے اور رفتہ رفتہ حکومت کی طاقت فوج استعمال کررہی ہے، چند روز پہلے آپریشن عزم استحکام کیلئے وفاق نے 20 ارب روپے منظور کئے ہیں، آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے عوام کے ذہنوں میں کئی سوالات موجود ہیں جن کے جواب ابھی دینا تھے مگر مالی وسائل پہلے ہی مختص کردیئے گئے، یہ ایک مثال ہے جو موجودہ نظام کی عکاسی کررہی ہے، اس نظام نے عوام کے حق انتخاب کو سلب کرکے ایک ریاستی ادارے کی طرف منتقل کردیا ہے۔
اشخاصی خواہشات پر مبنی نظام کے وجودی خرابی نے پاکستانی معاشرے کو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کردیا ہے، مقابلے کی سکت کمزور کردی ہے مہنگائی کے خلاف احتجاج کے بجائےخودکسیاں عام ہوگئی ہیں، پاکستان میں مہنگائی اور معیشت کی تنزلی کا آغاز جنرل (ریٹائرڈ) قمر باجوہ کے رجیم چینچ منصوبے سے شروع ہوا اور پاکستانی معیشت کو ہر اچھے ڈاکٹر نے جواب دیدیا ہے، ماہرین ملک چھوڑ کر جارہے ہیں اور جو لوگ حب الوطنی کے جذبے کیساتھ پاکستان آئے تھے وہ مایوسی کیساتھ واپس اپنی بہتر زندگیوں کی طرف لوٹ گئے ہیں، بدھ کو پورے ملک میں موجودہ حکومت کی نااہلی اور بڑھتی مہنگائی کے خلاف احتجاج اور ہڑتال ہوئی، بلوچستان دو روز قبل حالت جنگ کی کیفیت گزرا تھا، وہاں بدھ کے روز ہونے والی ہڑتال سب سے زیادہ کامیاب رہی، اس ہڑتاک کی جماعت اسلامی نے دی تھی جبکہ تحریک انصاف اور اپوزیشن کی جماعتوں نے اس ہڑتال کی حمایت کی تھی، جماعت اسلامی نے بجلی کی قیمتوں میں ظلم پر مبنی اضافے کے خلاف اسلام آباد کے نزدیک چودہ روز تک دھرنا دیا، حکومت نے نااہل ترین اور بے اختیار دو وفاقی وزراء نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو کم کرنے کیلئے جماعت اسلامی کی قیادت سے معاہدہ کیا لیکن دو روز بعد وفاقی حکومت نے ایک بار پھر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کردیا، جماعت اسلامی کو اس دوران سخت تنقید اور طنز کا سامان کرنا پڑا جس سے منہ چھپانے کیلئے جماعت اسلامی نے ہڑتال کا اعلان کیا، پورے ملک میں ہڑتال کو رسپانس اچھا ریکارڈ کیا گیا، مسئلہ صرف بجلی کی قیمتوں کا نہیں ہے عوام موجودہ مسلط نظام سے تنگ آئے بیٹھے ہیں عوام کو سب سے زیادی تکلیف اُن کے ووٹوں کی بے قدری سے ہوئی ہے، عوام ووٹ کی طاقت سے چند افراد کی خواہشات کے برخلاف تحریک انصاف کو دوبارہ اقتدار میں دیکھنا چاہتے تھے مگر رات کے اندھیرے میں طاقتوروں نے عام کی اُمیدوں کو خاک میں ملادیا اور اب اسی خاک سے چنگاریاں جنم لے رہی ہیں اور لوگوں کا خیال ہے کہ جلد ہی بنگلہ دیش کی طرح عوام ازخود حکمرانوں اور اِن کے پشت پناہوں کا احتساب کریں گی۔
وقت تیزی سے گزر رہا ہے اہل حل وعقد کو جلد کچھ کرنا ہوگا، نجی شعبے کے بجلی پیدا کرنے والوں کا احتساب کیا جائے بغیر بجلی بنائے اربوں ڈالر انہیں کیسے مل گئے، بجلی پیداکرنے والے پاکستانی سرمایہ کاروں کو گرفت میں لایا جائے، ایک میاں منشا اور جہانگیر ترین کے فائدے کیلئے پوری قوم کو مشکلات سے دوچار کرنا نظام اور مملکت کیلئے خطرہ ثابت ہورہا ہے، صدر مرکز تنظیم تاجران پاکستان محمد کاشف چوہدری نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تاجر اپنے اثاثے فروخت کر کے بل ادا کر رہے ہیں۔ تاجر دشمن اسکیموں کو مسترد کرتے ہیں، دکانوں پر 60 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس لگانا ظلم ہے، کاشف کی بات درست ہے ٹیکس کے نفاذ میں تاجروں کی آمدنی کو ملحوظ خیال رکھا جائے اور پھر قوم سے جمع کردہ ٹیکس حکمرانوں اور سول و فوجی نوکرشاہی کی عیاشیوں اُن کی اوکادوں کے بیرون ملک قیام اور جائیدادوں پر خرچ ہو تو ٹیکس دہندہ ہیجانی کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے، طاقتور حلقے اس بات کو سمجھیں کفر سے حکومت باقی رہ سکتی ہے ظلم سے حکومت نہیں چلتی، نادر شاہ افشار نے دہلی میں ایک دن میں لاکھوں انسانوں کو تہ تیغ کردیا لیکن نادر شاہ کو اس ظالمانہ اقدام کے بعد دہلی چھوڑنا پڑا تھا۔