تحریر : محمد رضا سید
فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی فوجی آپریشن کے دوران گرفتار کئے گئے فلسطینیوں پر دوران حراست غیر انسانی تشدد کے کیسز تیزی کیساتھ سامنے آرہے ہیں، عارضی قید خانوں میں قید فلسطینی قیدی نوجوانوں کے خلاف اسرائیلی فوج کے اہلکاروں کی جانب سے جنسی تشدد میں اضافے کی رپورٹس سامنے آئی ہیں، یہ وہ چند واقعات ہوتے ہیں جو رپورٹ کئے جاتے ہیں بیشتر وقعات رپورٹ نہیں ہوتے، جسمانی اور جنسی تشدد میں ملوث اسرائیلی فوج کے اہلکاروں کو اسرائیلی قانون کے تحت سزائیں نہیں دی جاتی ہیں کیونکہ اسرائیلی فوج کے زیراہتمام عارضی جیل خانوں پر سول قوانین نافذ نہیں ہوتے ، ایسے دسیوں اسرائیلی فوجی جو جسمانی اور جنسی تشدد میں ملوث تھے انہیں صرف اُن کی پوزیشنز سے ہٹایا گیا کیونکہ اقوام متحدہ نے فلسطینی قیدیوں کو جنگی قیدیوں کا درجہ نہیں دیا ہے اور نہ اس جانب توجہ مبذول کی جارہی ہےلہذا فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی فوج کی زیر نگرانی عارضی جیلوں میں جنگی قیدی کے حقوق میسر نہیں ہیں، اِن عارضی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کیساتھ بدترین اور غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے،اسرائیلی جنگی کابینہ میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزراء تشدد پسند فوجی اہلکاروں کی پشت پناہی کررہے ہیں ، مقبوضہ علاقےجنین کے رہائشی ایمن راجح عابد کی موت دوران حراست اسرائیلی سکیورٹی فورسز کےتشدد کے نتیجے میں ہوئی، اسیران کی امور کے کمیشن اور فلسطینی قیدیوں کی سوسائٹی نے ایک مشترکہ بیان میں اطلاع دی ہے کہ شہید عابد کے ابتدائی طبی معائنے کے مطابق 58 سالہ عابد کی شدید تشدد کے نتیجے میں ہلاکت ہوئی ،اِن کے ہاتھوں پر ہتھکڑیوں کے نشانات واضح نظر آرہے تھے اور اس کے جسم پر مار پیٹ اور تشدد کے نشانات تھے۔
اگست کے آخری ہفتے میں جنین کے مہاجر کیمپوں میں شروع کئے گئےاسرائیلی فوج کے آپریشن میں کم از کم 24 فلسطینی شہید ہوئے جسے اسرائیلی فوج کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے میں کئی دہائیوں میں سب سے بڑے چھاپہ مار آپریشن قرار دیا گیا ہے ، اسرائیلی فوجی بچوں اور خواتین کو گھنٹوں دھوپ میں بیٹھا کررکھتے ہیں اور اس دوران پانی تک فراہم نہیں کیا جاتا، ایسے تشدد آمیز واقعات کے دوران طبی سہولت کی فراہمی بھی ممنوع ہوتی ہے، خالد السہام 6 یا 7 سالہ بچہ جسے اسرائیلی فوجی نے زخمی کردیا تھا ، اس کو طبی امداد تک رسائی پہنچنے سے روکا گیا، فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے 333 دن مکمل ہوچکے اس دوران شہید اور لاپتہ ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے، غزہ میں سرگرم تنظیم ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق لاپتہ فلسطینیوں کے متعلق رائےہے کہ وہ عمارتوں کے ملبے تلے دب کر شہید ہوچکے ہیں، غزہ میں ملبہ اُٹھانے کیلئے جنگ بندی کی ضرورت ہے اور اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور حماس کو مٹانے کی خواہش جنگ بندی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، فلسطینی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ منگل 3 ستمبرکے دن غزہ بھر میں رہائشی عمارتوں، بے گھر لوگوں کو پناہ دینے والے خیموں اور سڑکوں پر اسرائیلی فضائی اور توپ خانے کے حملے جاری رہے جس میں درجنوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں، غزہ کے شہری دفاع کے ترجمان محمود بسال نے کہا کہ غزہ شہر کے جنوب میں واقع زیتون محلے میں توپ خانے کی گولہ باری سے ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے، انہوں نے مزید کہا کہ رفح شہر کے مشرق میں واقع التنور محلے پر اسرائیلی حملے کے بعد العرجہ خاندان کی چار خواتین کی لاشیں بھی برآمد ہوئی ہیں، غزہ کے جنوبی شہر رفح میں مواسی میں الفردوس اسکول کے قریب اسرائیلی حملے میں ایک فلسطینی بھی مارا گیا، یہ حملے دس سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے دوران ہوئے ہیں جبکہ اس سے قبل اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ وہ پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے دوران فلسطینی علاقوں پر حملے نہیں کرئے گی کیونکہ غزہ میں 25 سالوں میں پولیو کا پہلا تصدیق شدہ کیس ریکارڈ ہوا تھا،صحت کے کارکنوں کی جانب سے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم اسرائیل کی جانب سےلڑائی میں محدود وقفے پر رضامندی کے بعد شروع ہوئی، مہم کے دوران اب تک تقریباً 158,992 بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاچکے ہیں جبکہ اب بھی کم و بیش پانچ لاکھ بچے پولیو کے قطرے پینے سے محروم ہیں اور اسرائیل نے حملے شروع کردیئے ہیں۔
اسی اثناء میں غزہ میں جنگ بندی کے ناکام مذاکرات کی خبریں باہر نکلنے کے بعد اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں اسرائیلی شہریوں کا غصہ بڑھ رہا ہے، اسرائیلی حملوں میں چھ اسرائیلی اسیروں کی ہلاکت کے بعد وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو بڑھتے ہوئے ملکی اور بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے، امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ نیتن یاہو کےقیدیوں کی رہائی کیلئے اقدامات ناکافی ہیں، بین الاقوامی دباؤ اور اسرائیل کے زیر قبضہ شہروں میں تل ابیب حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کے دوران اسرائیلی مظاہرین نے غزہ میں قید اسرائیلی اسیران کی واپسی کو محفوظ بنانے کیلئے فوری معاہدہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اسرائیل میں ہڑتال اور احتجاج سے نظام کے دھرم بھرم ہونے کے باوجود جنگ پسند نیتن یاہو اور اِن کی کابینہ ابھی تک غزہ کی جنوبی سرحد کے ساتھ فلاڈیلفی کوریڈور پر اسرائیلی فوج کے کنٹرول کے نکتے پر اصرار کررہی ہے جبکہ مصر اس سرحد کو اپنی قومی سلامتی کے پیش نظر اسرائیلی فوج کے کنٹرول میں دینے کے حق میں نہیں ہے، غاصب اسرائیلی حکومت نے ابتک جنگ بندی معاہدے کی ہر کوشش کو سبوتاژ کیا ہے لیکن اگر سال مکمل ہونے سے قبل جنگ بندی نہیں ہوگی تو اسرائیل کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑے گا۔