تحریر: محمد رضا سید
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے طالبان کے خود ساختہ اخلاقی قوانین کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان خواتین کو نشانہ بنانے والی پالیسیوں کو فوری طور پر تبدیل کرنے کے لئے طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15 میں سے 12 اراکین نے افغانستان میں طالبان کے نظامی صنفی امتیاز اور خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ظلم کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی، چین، روس اور الجزائر نے مذمتی بیان کی حمایت نہیں کی حالانکہ روس اور چین نے افغانستان کے طالبان حکمرانوں سے تعاون پر مبنی تعلقات قائم کررکھے ہیں، سلامتی کونسل کی مذمت طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخندزادہ کے گزشتہ ماہ ایک حکم نامے کے بعدسامنے آئی ہے، جس میں افغان خواتین کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ عوام میں اونچی آواز میں بات نہ کریں اور باہر نکلتے وقت اپنے پورے جسم اور چہرے کو ڈھانپیں، روس اور چین نے مذمتی بیان کی اس شرط پر حمایت کی ہے اس مسئلہ پر افغان طالبان کے خلاف تادیبی کارروائی سے گریز کیا جائے کیونکہ یہ اندرونی افغان معاملے پر جس پر سلامتی کونسل کا تادیبی فیصلہ غیر منصفانہ ہوگا، تاہم امریکہ اور برطانیہ نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین اور بچوں کے حقوق میں صنفی امتیاز کے خلاف عالمی برادری کا اقدام کرنا عالمگیر حیثیت رکھتا ہے لہذا فغانستان کے طالبان حکمرانوں کو صنفی امتیاز برتنے اور عمومی طور پر جابرانہ قوانین کے نفاذ سے روکنے کیلئے سخت ترین اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں کا موقف رہا ہے کہ افغانستان خواتین پر مشتمل اپنی آدھی آبادی پر جابرانہ قوانین نافذ کرکےکبھی ترقی نہیں کر سکے ۔
طالبان نے شریعت کی اپنے نظریات کے مطابق تشریحات پر مبنی 35 صفحات پر مشتمل اخلاقی قوانین کا مسودہ نافذ کیا ہے، جس میں 114 آرٹیکلز مردوں اور عورتوں کے لئے لازمی یا ممنوع سمجھے جانے والے اقدامات کی تفصیلات درج ہیں، جس خواتین کو بلند آواز سے اشعار پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، غیرمتعلقہ مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے منع کیا گیا ہے اور عورتوں کو غیر مسلموں کی موجودگی میں اپنے آپ کو مکمل ڈھانپنا چاہیے، مردوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مٹھی سے لمبی داڑھی رکھیں، ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنیں اور اپنے جسم کو ناف اور گھٹنے کے درمیان بے نقاب کرنے سے گریز کریں، اِن قوانین کے نفاذ کیلئے طالبان پر مشتمل اخلاقی پولیس بنائی گئی ہے جبکہ ہزاروں سرکاری ملازمین کو اخلاقی وقوانین پر عمل نہ کرنے پر ملازمتوں سے برخاست کیا گیا ہے، طالبان حکمرانوں کا یہ عمل دراصل باعث ہدف تنقید ہونا چاہیے کہ اخلاقی پولیس کی تشکیل کیلئے مدرسوں سے فارغ التحصیل افراد کو بھرتی کیا جارہا ہے اور اس مد کیلئے رقم سرکاری ملازمین کو فارغ کرکے جمع کی جارہی ہے، اخلاقی قوانین کو مرتب کرتے ہوئے طالبان حکمرانوں نے اسلامی شریعت کی تشریح کیلئے اپنے قبائلی نظریات اور فقہ پر تکیہ کیا ہے جبکہ اس ملک میں دیگر اسلامی مسالک سے تعلق رکھنے والوں فقہی تشریحات کو نظرانداز کیا گیا ہے، جب ایسی صورتحال کو وجود میں لایا جاتا ہے تو اغیار کو موقع ملتا ہے کہ وہ داخلی اُمور میں مداخلت کریں، کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد رواداری کی جو فضاء دیکھنے کو ملی تھی وہ قابل ستائش تھی مگر قبائلی اور تنگ نظری پر مبنی اخلاقی قوانین کو اسلامی قرار دیکر جابرانہ انداز میں نافذ کرنا معاشرتی انتشار اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کا باعث بننے گی، عورتوں اور لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا تو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، ہم بچپن سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی حدیث پڑھتے آئے ہیں کہ علم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے تو طالبان کون ہوتے ہیں کہ عورتوں پر علم کا دروازہ بند کریں۔
اس مسئلے پر تو علماء اسلام کو سامنے آکر طالبان کے نام نہاد نظریات کی مخالفت کرنی چاہیے، اسی طرح پردے کی ایک قبائلی تشریح ہے اور ایک اسلامی تشریح ہے طالبان کو اس میں فرق رکھ کر اسلامی تشریح کو اپنانا چاہیے، تین سال قبل اقتدار میں آنے کے بعدطالبان نے 12 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے چھٹی جماعت سے آگے کے اسکول جانے پر پابندی لگا دی ہے اور خواتین کی ملازمتیں صحت کی دیکھ بھال جیسے منتخب شعبوں تک محدود کر دی ہیں، اسلام کی اس خود ساختہ تشریح کی کوئی بنیاد نہیں ہے، ایک عورت علمی استعداد حاصل کرنے میں مکمل آزاد ہے، وہ معلم بھی بن سکتی ہے اور سائنسدان بھی بننے میں آزاد ہے، اسلام میں پردہ عورت کی عفت کی سلامتی کو یقینی بناتا ہے تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکتا ہے،اسکی اجازت اسلام نے اُسے دی ہےافغانستان ہماری دنیا کا حصّہ ہے ، اسکی اندرونی سیاست کا اثر پڑوسی ملکوں اور دنیا پر پڑتا ہے، اس کثیر اللسانی اور کثیرالمسالک ملک کو اگرچند ہزار مسلح افراد کا ایک گروہ جبر کے نظام کے ذریعے چلائے گا تو عالمی برادری خاموش کیسے رہ سکتی ہے، افغان طالبان نے ملک پر کنٹرول حاصل کرکے جس ترقی پسند سوچ کا راستہ اختیار کیا ہے وہ اِن کے قبائلی اور محدود سوچ کی آمیزِش پر مبنی ثانوی حیثیت کے حامل اقدامات سے مذموم شکل اختیار کرلے گا، جس میں افغانستان کا نقصان ہے، طالبان اسلام کی حقیقی اقدار پر مبنی روشن خیال معاشرے کو وجود میں لاکر ترقی یافتہ دنیا کیلئے ایک مثال بنایا جاسکے، مسلم دنیا جس حالات کا سامنا کررہی ہے اسکا تقاضہ ہے کہ مسلم معاشرے کی وحدت پر کام کیا جائے فرقہ بندیوں کو ختم کرکے اسلام کی اُجلی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی جائے، افغان خواتین کو پارکوں اور عوامی تفریحی مقامات پر جانے سے منع کرنا اور سڑک یا ہوائی سفر کے دوران ایک مرد سرپرست کا ساتھ ہونا کسی طرح بھی اسلام کی تشریح کی بنیاد ی اُصولوں سے مطابقت نہیں رکھ سکتا ہے، اسلامی تعلیمات روشن خیالی اور جنسی بنیادوں پر انسانی حقوق میں تفریق کا سب سے بڑا مخالف ہے۔
اقوام کے قومی ترانوں اور پرچم کا احترام کرنا کہاں کا شرک ہوگیا؟ مسلم زعماء نے تو اس طرح کا کوئی حکم نہیں دیا ہے لہذا اپنی سوچ کو اسلامی تعلیمات کا عنوان دینا اور لبادہ پہنانا ہرگز اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے ، یہ سوچ اسلام کی حقیقت سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتی ہے، خود طالبان کا اپنا پرچم ہے جسکا وہ بہت احترام کرتے ہیں، اسی طرح طالبان کو بھی دیگر اقوام کا احترام کرنا چاہیے، قومی ترانے اور پرچم اقوام کی شناخت ہوتے ہیں اں کے احترام سے مشرک ہونے کا تصور بلامبالغہ درست نہیں ہے،اسلام کی تعلیمات کا انحصار باہمی احترام ہے اور اسلام نے تو جھوٹے خداؤں کی توہین نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے، طالبان کوتاہ فکری ترک کرکے ایک مستحکم، پرامن اور خوشحال افغانستان تشکیل دے سکتے ہیں، اس موقع کو گنوانا نہیں چاہیے بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اِن کے دیگر حقوق اور بنیادی آزادی کے اُصول کو اپنانے سے افغانستان مہذب معاشروں میں اسلامی تعلیمات کا نمونہ بن سکتا ہے، افغانستان نے ملک کی ترقی کیلئے جس طرح کوششیں کی ہیں اور کامیابی حاصل کررہے ہیں انہیں فروعی معاملات میں اُلجھ کر ضائع نہ کریں۔
2 تبصرے
طالبان نے اپنے طور پہ ایک اسلام کی تشریح کی اور اس کے تحت وہ عورتوں پہ ظلم کررہے ہیں عورتوں کو تعلیم سے روکتے ہیں یہ درست نہیں ہے یہ اسلام کا اجلا چہرہ نہیں ہے خدا طالبان بھی سمجھے وہ اقتدار تو بہت اچھے کام کر رہے تھے نہریں بنا رہے تھے ریلوے لائن ڈال رہے تھے اب کیا ہو گیا کہ وہ ان معاملات میں پڑ گئے ہیں یہ فروری معاملات ہیں اپ اس وقت افغانوں کو غربت کی سطح سے اوپر لے کے لائیں تاکہ دنیا میں وہ مقام حاصل کر سکیں جو انہیں ملنا چاہیے
اگر طالبان پاکستان کے ترانے کا احترام نہیں کرتے تو پھر انہیں پاکستان میں شفاعت کائی کی کیوں اجازت دی گئی ہے یہ تو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے