اسلام آباد ہائی کورٹ نے فوجی افسران کے میڈیا پر بیانات کے حوالے سے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) کی ہدایات کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ آئی ایس پی آر کی قانونی حیثیت کیا ہے اور اس بات کے تعین کا حق کیسے حاصل ہوا کہ پاکستان میں دفاعی تجزیہ کار کون ہوسکتا ہے، یہ پیشرفت منگل کو اس وقت سامنے آئی جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیمرا ہدایات کے خلاف درخواست کا حکم نامہ جاری کیا، پیمرا ہدایات میں ریٹائرڈ فوجی افسران کو ٹیلی ویژن پر پیش ہونے سے قبل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز سے اجازت لینے کا پابند کیا گیا تھا جسے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، اپریل 2019 میں پیمرا نے تمام ٹیلی ویژن چینلز کو ہدایت کی تھی کہ وہ ریٹائرڈ فوجی افسران کو قومی سلامتی کے معاملات پر اظہار خیال کے لئے خبروں اور حالات حاضرہ کے پروگراموں میں مدعو کرنے سے پہلے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) سے پیشگی کلیئرنس حاصل کریں، ان ہدایات کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایکس سروس مین لیگل فورم نے چیلنج کیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم میں کہا گیا کہ سماعت کے دوران اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عدیل اختر راجا نے وزارت دفاع اور آئی ایس پی آر کی جانب سے داخل جواب پر انحصار کیا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ آئی ایس پی آر کی قانونی حیثیت کیا ہے اور آئی ایس پی آر کو اس بات کے تعین کا خصوصی حق کیسے حاصل ہے کہ پاکستان میں دفاعی تجزیہ کار کون ہوسکتا ہے تو اس کے جواب میں اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کی مدد کے لئے مزید وقت طلب کیا، عدالتی حکم میں مزید کہا گیا کہ پیمرا کے وکیل سے کئی سوالات پوچھے گئے جیسے کہ ٹیلی ویژن پر مواد فراہم کرنے والے افراد کی پیشگی کلیئرنس کا ملکی خودمختاری یا سلامتی سے کیا تعلق ہے، اتھارٹی تقریر پر پیشگی پابندی کیسے لگا سکتی ہے اور ہدایات جاری کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی اور کیا اس مقصد کے لئے فوج یا آئی ایس پی آر کے کسی ذرائع سے کوئی درخواست موصول ہوئی تھی، جسٹس بابر ستار نے حکم دیا کہ پیمرا کو عدالت کے سامنے وہ اصل نوٹنگ فائل پیش کرئے جس کی بنیاد پر کالعدم نوٹیفکیشن پر کارروائی، سفارش کی گئی اور اسے جاری کیا گیا تاکہ عدالت کی معاونت کی جا سکے کہ پیمرا کو مذکورہ نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ عدالت نے پوچھا کہ پیمرا نے کِس کی سفارش پر نوٹیفکیشن جاری کیا اور پیمرا کے پاس ٹی وی چینلز کا مواد ریگولیٹ کرنے کا کونسا اختیار ہے؟ پیمرا کے وکیل نے ان سوالوں کے جوابات کے لئے وقت مانگ لیا جس پر کیس کی سماعت 20 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔