تحریر : محمد رضا سید
بلوچستان ہائی کورٹ کے الیکشن ٹربیونل نے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 44 کے 16 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ انتخابات کا حکم دیا تھا جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان پیپلز پارٹی کے عبید اللہ گورگیج کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن کالعدم قرار دے دیا، پیپلزپارٹی کے گورگیج کی کامیابی کو نیشنل پارٹی کےعطا محمد بنگلزئی نے چیلنج کیا تھا، بنگلزئی نے اعلیٰ عدلیہ سے درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ فارم 45 کے نتائج میں وہ کامیاب قرار پائے تھے، تاہم فارم 47 میں دھاندلی کرکے عبیداللہ گورگیج کامیاب قرار دے دیا گیا تھا، 8 فروری کے انتخابات میں فارم 45 اور فارم 47 کے تنازعہ نے انتخابی عمل پر سنگین سوال اُٹھائے ہیں، اگر قاضی فائز عیسیٰ جنھوں نے اِن الیکشن کو اُس وقت سے مینج کرنا شروع کردیا تھا جب وہ اس منصب پر فائز ہوئے تھے اور نوازشریف کو کرپشن کرنے پر دی گئی سزاؤں سے خلاصی کرائی تھی اور مجرم سے ملزم بنادیا تھا، قاضی فائز عیسیٰ کا دور پاکستان کی عدلیہ میں سیاہ ترین دور قرار دیا جارہا ہے اور وکلاء فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے دن یوم تشکر اور یوم نجات منانے کی تیاری کررہے ہیں، فائز عیسیٰ کے بحیثیت جسٹس اور پھر چیف جسٹس کے ادوار کا الگ الگ جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں عدلیہ کو اس طرح کے چیلنجز کا شامنا کرنا نہ کرنا پڑے اہم عہدوں تک ایسے مطلق العنان سوچ کے حامل افراد کا پہنچنا نقصان دہ نہیں تباہ کُن ہوتا ہے، اکثر تجزیہ نگار کہتے ہیں فائز عیسیٰ جیسے قاضیوں کی مثال موجود نہیں ہے لیکن اُن کی نظر اسلامی تاریخ پر نہیں ہے ، اسلامی تاریخ کے دور ملوکیت میں قاضی فائز عیسیٰ جیسے بیشمار قاضی ملیں گے ، ترک خلافت کے دور میں متعدد بلکہ تمام قاضی القضاء ماؤں کی گود میں موجود بچوں کے قتل کو جائز قرار دیتے تھے تاکہ مستقبل میں کوئی شہزادہ بغاوت نہ کرسکے، پیپلزپارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی عبید اللہ کے کیس میں بلوچستان ہائیکورٹ نے جو فیصلہ دیا وہ قابل اطمینان تو نہیں لیکن گھٹن اور ججز پر طاقتور اداروں کے دباؤ کی منکشف حقیقت کے ماحول میں سول سوسائٹی اور لوگوں کیلئے باد نسیم کا جھونکا ہے، ابھی بہت سفر طے کرنا باقی ہے ، انساف دینے کے ذمہ دار اداروں کو سندھ پہنچنا ہے کراچی کے حلقے کھولنا ہیں ، نوازشریف ، مریم ، بلاول اورآصف زرداری کے حلقے کھولنا ہونگے تاکہ جعل سازی کا پردہ چاک کرکے حقیقی منتخب افراد کو قانون ساز اداروں تک پہنچایا جائے۔
نامزد چیف جسٹس یحیٰ آفریدی سے بہت زیادہ اُمیدیں تو وابستہ نہیں ہیں لیکن یہ اُمید ضرور ہے کہ وہ 8 فروری 2023ءکے انتخابات میں ہیرپھیر کرنے والے افراد اور اداروں کو قانون کے کٹہرے میں ضرور لائیں گے کیونکہ یہ آئینی معاملہ نہیں افراد کو انصاف فراہم کرنے کا ہے، عوام کی واضح اکثریت کی رائے ہے کہ جانے والے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کےتعصب پر مبنی کرتوں کا جائزہ لینے کیلئے سینئر ججز کا کمیشن بنایا جائے جو فائز عیسیٰ کی وجہ سے ملک کے نظام انصاف کو پہنچنے والے نقصانات پر رپورٹ مرتب کرئے تاکہ وہ مزید قوم پر بوجھ نہ بن سکیں، اُن کی مراعات اور پنشن روکی جاسکے، اس کی مثال خود فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ایک معزز جسٹس کے خلاف اقدام کرکے قائم کی ہے، پاکستان کو مزید نقصان سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ فروری 2023ء کے عام انتخابات کا مکمل آڈٹ کرایا جائے عوام کے مینڈیٹ کو چوری کرنے والے قصورواروں کو سزائیں دی جائیں اور جب تک ایسا نہیں ہوگا طاقتور یوں ہی مملکت کا مذاق بنواتے رہیں گے، سپریم کورٹ نظریہ ضرورت دفن کرچکی ہے ہمیں نئی سپریم کورٹ سے توقع کرنی ہوگی کہ وہ انصاف کا بول بالا کرئے گی جس کی قیمت کچھ بھی ہو۔
پاکستان کو گزشتہ کئی سالوں میں بہت زیادہ بدل دیا گیا ہے ،پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کتنی کمال ڈھٹائی کیساتھ کہتے ہیں کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی موجودگی کی وجہ سے ہی حکومتی اتحاد 26 آئینی ترمیم منظور کراسکا، یہ کام کسی اور چیف جسٹس کی موجودگی میں ممکن نہیں تھا، بلاول نے اس بات کا بھی انکشاف کردیا کہ مسلم لیگ (ن )کی یہ خواہش تھی کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل آٹھ میں تبدیلی کر کے اس آرٹیکل میں فوجی چیک پوسٹوں، چوکیوں اور عسکری تنصیبات کو بھی شامل کیا جائے تاکہ اِن مقامات کو نشانہ بنانے والوںوالے سویلین افراد کا فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانا ممکن بنایا جاسکے، کہیں نہ کہیں تو یہ خواہش پیپلزپارٹی کےمقتدر باپ بیٹے کی بھی تھی ، جو پہلے ہی جمہوریت کو دفن کرچکے ہیں ، کوئی سوچ سکتا تھا کہ بھٹو کی پیپلزپارٹی اُن کے قاتلوں سے ہاتھ ملائے گی تاکہ وہ حکمرانی کے ذریعے اپنی دولت میں قارون کی طرح اضافہ کرسکیں، فائز عیسیٰ کے جانے کے بعد سیاسی تبدیلی کا سفر شروع ہونے کا قوی امکان ہے ، اس صورت میں نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کے بجائے انصاف پر مبنی فیصلے سامنے آئے تو پاکستان ترقی کے سفر کی پٹری پر واپس آجائے گا۔