تحریر: محمد رضا سید
اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کی ایک خفیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکہ اور بعض یورپی ملکوں کے دباؤ کو نظر انداز کر کے افزودہ یورینیم کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ کرلیا ہے، جو جوہری ہتھیار بنانے کیلئے درکار افزودگی سے بہت قریب ہے، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 26 اکتوبر 2024ء تک ایران کے پاس 182.3 کلوگرام یورینیم موجود تھا جس کی افزودگی کی سطح 60 فیصد ہے، یہ مقدار اگست کی آخری رپورٹ سے 17.6 کلوگرام زیادہ ہے جبکہ جوہری ہتھیار بنانے کیلئے 90 فیصد تک یورینیم کی افزودگی درکار ہوتی ہے اور 60 فیصد افزدوہ یورینیم کو 90 فیصد تک لے جانا تکنیکی طور پر زیادہ مشکل نہیں ہوتا، جوہری توانائی کے ادارے آئی اے ای اے کے مطابق نظریاتی طور پر 60 فیصد تک افزودہ 42 کلوگرام یورینیم کو مزید افزودہ کر کے ایک جوہری ہتھیار بنانا ممکن ہے، یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حالیہ مہینوں میں غزہ جنگ کے پس منظر میں اسرائیل اور ایران نے ایک دوسرے کے خلاف میزائل حملے کیے ہیں، اس منظر نامے کو پیش نظر رکھتے اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے امیر سعید نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی اور خطے کے دیگر ممالک کے خلاف اس کی کھلی جارحیت کے سبب مشرق وسطی کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ایٹمی اور غیر ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ بنانے پر زور دیا ہے، ایران نے گزشتہ ہفتے آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل ماریانو گروسی کے تہران کے دورے کے موقع پر اپنے یورینیم کے مزید ذخائر کو 60 فیصد افزودگی تک نہ بڑھانے کی پیش کش بھی کی ہے، سیعد نے مشرق وسطی میں جوہری اور عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے متعلق عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ ایک سال کے دوران غزہ پر اسرائیلی جارحیت سے اس بات کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے کہ مشرق وسطی کو جوہری ہتھیاروں اور عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک کرنا ضروری ہے، یہاں یہ وضاحت کرنا ناگزیر لگتا ہے کہ اسرائیل غیر اعلانیہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والا مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے، اسی طرح اسرائیل مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے جس نے ایٹمی ہتھیار تیار نہ کرنے کے عالمی معاہدے این پی ٹی پر دستخط نہیں کئے ہیں۔
جوہری ہتھیاروں کی دوڑ پر تشویش ظاہر کرنے والی پانچ ایٹمی طاقتوں کا این پی ٹی معاہدے کو غیر مؤثر بنانے میں مجرمانہ کردار رہا ہے، جس نے ناجائز ریاست اسرائیل کو ہمت افزائی کی، جوہری ممالک نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں میں کوئی کمی نہیں کی بلکہ اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں کوتاہی کی اور مزید ایٹمی ری ایکٹر کی تعمیر کرتے جارہے ہیں اور مسلسل ایٹمی ہتھیاروں میں اضافہ کررہے ہیں جو کہ این پی ٹی کی روح کے منافی ہے، اسرائیل امریکہ کی حمایت کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں اضافہ کررہا ہے، اس کا جوہری پروگرام کسی بین الاقوامی معاہدے کی نگرانی میں شامل نہیں ہے، یہی وہ وجہ ہے جس نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو تکمیل کی جانب گامزن کیا، ایران نے سرکاری طور پر ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ملک ہونے کا اعلان تو نہیں کیا ہے تاہم امریکہ سمیت اہم ملکوں کی خفیہ ایجنسز دعویٰ کرتی ہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنا چکا ہے اور مزید ہتھیار بنانے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے، ایرانی حکام میڈیا اور سفارتکاروں سے غیر رسمی گفتگو میں اپنے ملک کی ایٹمی شعبے میں پیشرفت کو تسلیم کرتے ہیں مگر ایٹمی ہتھیار بنانے سے متعلق رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے فتوے کو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں، گزشتہ دنوں اسرائیل کے جارحانہ روہی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایرانی معاشرے میں مختلف سطحوں پر یہ بحث ہوئی ہے کہ تازہ ترین عالمی اور خطے میں ہونے والی پیشرفت کے تناظر میں رہبر انقلاب اسلامی کو قائل کیا جائے کہ وہ اس فتوے سے دستبردار ہوجائیں، ایران میں قم مقدس علمی اور فقہی شہر ہے، جہاں علماء اور ایک سے زیادہ فقہا موجود ہیں، قم میں مراجع کرام سے قربت رکھنے والے عالم دین علی نقی نقوی نے بتایا کہ علماء کے درمیان ایٹمی ہتھیار بنانے سے متعلق امام خامنہ ای کے فتوے کو لیکر بحث ہورہی ہے کہ جن حالات میں زہبر معظم نے اس متعلق فتویٰ دیا تھا وہ زمینی حالات بدل چکے ہیں لہذا قم سے اس فتوے میں ترمیم کیلئے آوازیں اُٹھنا شروع ہوچکی ہیں، علمی اور فقہی شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ زمان اور مکان کسی بھی فقہی فیصلے میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے، بہت ممکن ہے کہ رہبر معظم ملت اسلامیہ کے دفاع کیلئے اپنے حکم پر نظر ثانی کریں۔
ایران کے نمائندہ خصوصی برائے اقوام متحدہ امیر سعید نے مشرق وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی جو تجویز دی ہے، اُسے قابل عمل بنائے بغیر مشرق وسطیٰ میں ایٹمی ہتھیار بنانے کی دوڑ ختم نہیں ہوسکتی، اسرائیل جیسی مذہبی جنونی ریاست کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا ہونا پورے مشرق وسطیٰ کیلئے خطرناک ہے، اگر ایران کی طرح سعودی عرب اور عراق بھی اپنے اپنے ایٹمی پروگرامز کی تکمیل تک پہنچ جائیں تو اسرائیل کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں ایٹمی خطرہ محدود ہوجائے گا کیونکہ تل ابیب کو یہ معلوم ہے کہ اُس کا خاتمہ ایک ایٹم بم سے ہوسکتا ہے، آئی اے ای اے نے کہا ہے کہ ایرانی عہدے داروں کے ساتھ مذاکرات میں یورینیم کے ذخائر کی 60 فیصد تک افزدوگی پر بات چیت ہوئی اور تکنیکی تصدیق کے پہلوؤں پر غور کیا گیا، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گروسی کی ایران سے واپسی کے ایک روز کے بعد 16 نومبر کو معائنہ کاروں نے تصدیق کی کہ ایران نے اپنے زیر زمین جوہری مراکز فردو اور نطنز میں یورینیم کو مزید 60 فیصد تک افزودہ کرنے کا عمل کو روکنے کے اقدامات شروع کر دیئے ہیں، یہ رپورٹ اس ہفتے ویانا میں آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے باقاعدہ اجلاس سے پہلے سامنے آئی ہے، اہم سفارتی ذرائع کے مطابق امریکہ کی حمایت کے ساتھ برطانیہ، فرانس اور جرمنی اس ہفتے آئی اے ای اے کے بورڈ کے اجلاس میں ایک قرارداد لا رہے ہیں جس میں ایران کی جانب سے تعاون میں عدم دلچسپی پر مذمت چاہتے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے منگل کو واشنگٹن میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم ایران کو جوابدہ بنانے کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی حکومت اعلیٰ سطح کے افزودہ یورینیم کے ذخائر جمع کر رہی ہے جس کا کوئی قابل اعتماد غیر فوجی مقصد نہیں ہے اور وہ آئی اے ای اے کے ساتھ مکمل تعاون بھی نہیں کر رہی، ان اطلاعات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایران کے خلاف قرارداد لانے یا پابندی عائد کرنے کے کسی بھی فیصلے سے ایران مشتعل ہوسکتا ہے، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کیساتھ کیا گیا ایٹمی معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ کرنےکا نتیجہ اچھا نہیں نکلا اور اگر ایران چاہے تو وہ اب بہت آسانی سے ایٹمی ہتھیار بناسکتا ہے۔