تحریر: محمد رضا سید
صدر بشار الاسدکی حکومت کے دوران کیمیائی ہتھیاروں کے وسیع ذخائر ہونے کے نام نہاد الزامات کی بنیاد پر امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد دمشق پر قابض مسلح گروہوں کے تعاون سے بظاہر کیمیائی ہتھیاروں کو انتہائی سرگرمی سے تلاش کررہی ہے جوکہ ایک فلاپ ڈرامے کی دوسری قسط ہے، دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیاں شام میں اپنی جڑیں مضبوط کررہی ہیں جبکہ امریکہ اور اسرائیل پس پردہ کے مذموم عزائم میں مصروف ہیں، اس سے قبل امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش ٹو نے 2003ء میں عراق پر کیمیائی اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے کا الزام لگاکر بغداد پر لشکر کشی کی تھی لیکن عراق سے کسی طرح کے خطرناک یا کیمیائی ہتھیار برآمد نہیں ہوئے، برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے بارہا کہا تھا کہ ان کے پاس مصدقہ انٹیلی جنس معلومات ہیں کہ عراق کے صدر صدام حسین کے پاس خطرناک اور کیمیائی ہتھیاروں کی بڑی تعداد موجود ہے بلکہ وہ کیمیائی ہتھیار بنانے کی فکٹریوں میں دن رات کیمیائی ہتھیار بنارہے ہیں جو اسرائیل اور سعودی عرب کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے اور جب عراق کا چپہ چپہ چھان لیا اور ہتھیار نہیں ملے تو برطانوی وزیراعظم نونی بلیئر نے جھوٹ بولنے پر معافی مانگنے کے بجائے انتہائی ڈھٹائی کیساتھ کہا کہ اگر انٹیلی جنس اطلاع غلط ثابت ہوئیں تو کیا ہوا، اس پر ہمیں افسوس ہے لیکن برطانیہ نے امریکہ کیساتھ ملکر عراق پر لشکر کشی کا جو فیصلہ کیا تھا وہ بہترین نیت سے کیا تھا، چاہے خطرناک اور تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں ملے مگر صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ اپنی جگہ ایک مثبت نتیجہ ہے، امریکی حکام اور بش انتظامیہ نے عراق کو برباد کرنے کے بعد تسلیم کیا کہ انٹیلی جنس معلومات غلط تھیں، بش نے عراق جنگ کو وسیع تر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے جنگ کا جواز برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی، سابق صدر بش کی انتظامیہ نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی عراق میں عدم موجودگی پر جواز کو بدلتے ہوئے عراق میں جمہوریت کے فروغ اور خطے کے استحکام کو جنگ کی کامیابی کے پیمانے کے طور پر پیش کیا، امریکہ میں بش انتظامیہ پر بھی شدید تنقید ہوئی لیکن اس وقت امریکی قوم پرستی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت کے باعث دباؤ محدود رہا۔
شام میں امریکہ اور اسرائیل کے مطابق کیمیائی ہتھیاروں کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لئے دونوں ملک مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں اور ترکیہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، دوسری طرف اسرائیلی ایجنٹ بھی یہی کام انجام دے رہے ہیں اسرائیلی فضائیہ بمباری کرکے ادویات بنانے والی فیکٹریوں کو تباہ کررہی ہے جو دمشق اور شام میں سابق صدر بشار الاسد حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں قائم ہیں، ابھی اس اطلاع کی تصدیق ہونا باقی ہے کہ اسرائیلی کی کوئی اہم اور مقتدر شخصیت دمشق پہنچی ہے اور مسلح گروہوں سے مذاکرات کئے ہیں، اسد مخالف مسلح باغیوں کے اہم کمانڈرز نے اسرائیلی مقتدر شخصیت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف کسی قسم کے منفی عزائم نہیں رکھتے ہیں اور باہمی تعاون کا تقاضہ کرتے ہیں، غالب امکان ہے کہ یہ خبر درست ثابت ہوگی ورنہ اسرائیلی کی غاصب فوج کا شام کی ملکیت گولان کے علاقوں اور بفرزون میں پیش قدمی کرنا اور بڑی تعداد میں شامی علاقوں میں ٹینکوں کو تعینات کرنا ممکن نہیں تھا، اس وقت امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی اپنے اپنے حامی مسلح گروہوں کو طاقت پہنچا رہے ہیں لیکن ابھی تک شام میں کوئی ایک مسلح باغی گروہ حکومت قائم نہیں کرسکا جبکہ صدر بشار الاسد حکومت کے وزیراعظم جلالی وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے انتظار کررہے ہیں کہ دمشق پر قابض مختلف مسلح گروہوں سے بات چیت کے بعد ملک میں حکومت کی رٹ قائم کرنے کا عمل شروع کی اجائے، شام اور بالخصوص دمشق میں پیٹرول کی راشن بندی ہے، جہاں جس مسلح گروہ کا کنٹرول ہے وہاں پٹرول پمپس پر گاڑیوں کی قطاریں نظر آرہی ہیں، صدر بشار الاسد حکومت گرانے تک متحد رہنے والے مسلح گروہ اختلاف کا شکار ہیں جس کے باعث حکومت کا عبوری سربراہ مقرر نہیں کیا جاسکا، اُدھر کردوں اور عرب جنگجوؤں کے درمیان بھی چھڑپیں ہوئی ہیں اور ترکیہ کے حامی کرد مسلح گروہ عرب مسلح گروہوں سے ناراض ہوکر اپنے علاقوں سے عربوں کو بے دخل کررہے ہیں، ترکیہ نے بھی کردوں کو نظرانداز کرنے پر اپنے غصّے کا اظہار کیا ہے اور متحدہ عرب امارات کو شام میں حکومت سازی کیلئے اپنے اپنے کردار کو محدود کرنے کا کہا ہے، اب امریکہ اور اسرائیل کو یہ خطرہ بھی لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں دہشت گرد گروپوں کو بشار الاسد حکومت کے پاس موجود ہتھیاروں پر قبضہ نہ کرلیں اور باہمی تصادم میں مبتلا ہوجائیں۔
صدر بائیڈن نے اتوار کو ایک تقریر میں کہا کہ ہم شام کے پڑوسیوں، لبنان، عراق، اردن اور اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے شام میں مسلح گروہوں سے پیدا ہونے والے کسی بھی خطرے سے اِن کو بچائیں گے، وزیر خارجہ بلنکن نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ ہم شامی عوام کے خلاف ہونے والے مظالم اور خلاف ورزیوں بشمول کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے لئے بشار الاسد حکومت اور اس کے حامیوں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لئے بین الاقوامی کوششوں کی حمایت کریں گے، اسرائیلی حکام کے مطابق گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فضائیہ نے شام کے درجنوں فوجی اڈوں، ہتھیاروں کے ڈپو اور تنصیبات پر فضائی حملے کیے ہیں، یہ تنصیبات شام کے کیمیائی ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل پروگرام کا حصہ تھیں، ایک اسرائیلی اہلکار نے بتایا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسٹریٹجک ہتھیاروں کا نظام شام کے پاس نہیں رہے۔
جس وقت امریکہ کے نامزد دہشت گرد جو حالیہ عرصے میں بقول صدر بائیڈن پاک صاف ہوچکے ہیں، دمشق میں ہفتے کے روز داخل ہوئے تو انھوں نے اپنے مشترکہ وار روم سے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ انھیں بشار الاسد کی حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے چاہے اسرائیل اسے اپنی تحویل میں رکھ لے، شامی مسلح گروپوں نے کہا ہے کہ وہ یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال نہیں کریں گے بلکہ انہیں تلاش کرنے میں امریکہ اور اسرائیل کی مدد کریں گے، بائیڈن نے اعتراف کیا کہ بعض باغی گروہ جنہوں نے بشار الاسد کا تختہ الٹ ہے، ان کا دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ ضرور موجود ہے، تاہم حالیہ دنوں میں اِن کے طرز عمل میں مثبت تبدیلی آئی ہے، اس معاملے پر صحافیوں کو بریفنگ دینے والے امریکی اہلکار نے اشارہ کیا کہ بائیڈن انتظامیہ حالیہ دنوں میں ھیئت تحریر الشام سمیت شامی اپوزیشن کے تمام گروپوں پر مشتمل حکومت بنانے کو ترجیح دے گی، امریکی صدر بائیڈن اور دیگر حکام کے سوچ سے اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ صدر بشار الاسد کے بعد شام نئے نئے بحرانوں کا سامنا کرئے گا، ترکیہ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اقتدار کی منتقلی پر اختلاف کا شکار ہیں اور ہر ملک اپنے حامیوں کو آگے بڑھا رہا ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل ہیں جو مذہبی شدت پسند عناصر کو اقتدار کی منتقلی نہیں چاہتے، بائیڈن نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم مذہبی مسلح گروہوں کے حالیہ خیالات کی حمایت کرتے ہیں جو اب روشن خیال بن چکے ہیں تاہم امریکہ روایتی طور پر جھوٹ اور فریب کے ذریعے کام کرتا ہے لہذا مستقبل قریب میں اِن مذہبی گروہوں کے خیالات کی تبدیلیوں کو مسترد کردیا جائے گا اور وہ کہیں کے نہیں رہینگے۔