تحریر: محمد رضا سید
پاکستان کے مجموعی حالات درست سمیت میں نہیں چلائے جارہے ہیں، پاکستان کی طاقتور فوج کی قیادت درگزر کرنے کیلئے تیار نہیں ہے حالانکہ پاکستان کی مقتدرہ کو یہ بات سمجھ میں آچکی ہے کہ غلطی کہاں ہوئی تھی مگر فوجی جنرلزکا استکبار غلطی سدھارے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے،عمران خان کی حکومت گرانے پر اس قدر شدید ردعمل نہیں آتا اگر اقتدار میں اُن لوگوں کو نہیں لایا جاتا جن کی کرپشن کے شواہد خود فوج کی نگرانی میں تیار کئے گئے تھے، مسئلہ عمران خان کی ضد کا نہیں ہے آئین اور قانون کی حکمرانی کا ہے، عمران خان قانون کی حکمرانی کی خواہش رکھتے ہیں، یہ تو اچھی بات ہے اسی لئے عوام بھی اُن سے ہمدردی اور پیار کررہے ہیں، اگر کسی نے آئین اور قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو ضرور احتساب ہونا چاہیئے، پاکستان کے 98 فیصد عوام اور قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ عمران خان پر بنائے گئے مقدمات درست نہیں ہیں اعلیٰ عدلیہ میں اِن مقدمات کو اُڑا کر رکھ دیا جائیگا، اُس کے باوجود عمران خان جیل کاٹ رہے ہیں، اُن کی زندگی کے اہم دنوں کوپاکستان کی بڑی سے بڑی طاقت واپس نہیں کرسکتی۔
پاکستان کی طاقتور فوج اور انٹیلی جنس اداروں کو قانون اور آئین کے تحت لانا پاکستان کو آگے چلانے کیلئے ناگزیر ہوچکا ہے، پاکستان دیولیہ ہونے کے سرخ خط سے واپس ہوکر دوبارہ اس سرخ خط کے قریب آچکا ہے،اس موقع سے فائدہ اُٹھانا چاہیئے اس کا حل عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے نکلتا ہے لیکن سیاسی حالات یہ خبر دے رہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا جارہا ہے بلکہ ایک ادارہ اب بھی عمران خان کو سرخ لکیر کے نیچے رکھنا چاہتا ہے، یہ اقدام پاکستانی ریاست کیلئے درست نہیں ہے، ہندوستان کےسوشل میڈیا پر تجزیہ کار اور شدت پسند عناصر جنھیں پاکستان میں بھی سنا جاتا ہے، پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، اللہ نہ کرئے وہ دن آئے جب برصغیر کی تقسیم کا نطریہ غلط ثابت ہو، پاکستان ایٹمی قوت رکھنے والی ریاست ہے درست فیصلے کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ پاکستان کی مدد ضرور کریں گےاور پاکستان مشکل صورتحال سے نکل جائیگا۔
پیر کے روز وزیراعظم کاکڑ نے اپنے بیان میں کہا کہ کچھ عناصر سوشل میڈیا کو بلیک میل اور سرکاری ملازمین پر دباؤ کے لئے استعمال کررہے ہیں، نگراں وزیراعظم کا کڑ یہاں کچھ عناصر کی جگہ عوام کہنا بھول گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کسی سرکاری اہلکار یا حکومت کے متعلق سچائی سامنے نہیں آئے، نگراں حکومت نے ایکس تک رسائی کو کئی دنوں سے مشکل بنایا ہوا تھا، نگراں حکومت کا یہ اقدام آئین خلاف ورزی ہے مگر چیف جسٹس آف پاکستان ایک ایسا کیس سننے میں مصروف ہیں جس میں ملزم کو پھانسی دی جاچکی ہے کوئی چیف جسٹس فائز عیسیٰ سے پوچھے کہ زندگی کے متعلق مقدمات کی کمی تھی جو انہیں ایک ایسا ریفرنس سننے کی ضرورت پیش آگئی جس میں اگر فیصلہ ریورس بھی کردیا جائے تو تب بھی مردے کو زندہ نہیں کیا جاسکتا تو سوال ضرور ہوگا کہ پھر یہ ڈرامہ کیوں؟ تو اسکا جواب ہے تشہیر یا انسانی حقوق کا نوبل انعام لینے کی خواہش، ابھی ہم نگراں وزیراعظم کے سوشل میڈیا پر حکومتی اور سرکاری اہلکاروں کی کارستانیوں کو سامنے لانے والوں کے خلاف دھمکی آمیز بیان پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر بار بار پابندیاں اور انٹرنیٹ بند کرنے سے منہ زور ریاستی ادارے جو عوامی ٹیکس سے تنخواہیں وصول کرتے ہیں بہت زیادہ بیباک ہوچکے ہیں، پولیس کا عوام سے رویہ جارحانہ ہے کم ازکم پنجاب کی حد تک تو یقین سے کہا جاسکتاہے۔
اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ نگراں حکومتوں کو طاقتور کس نے بیایا، نگراں حکومتیں صاف شفاف الیکشن کرانے کیلئے وجود میں آتی ہیں اور روز مرہ کے اُمور نمٹاتی ہیں مگر کاکڑ حکومت صاف شفاف الیکشن کرانے میں تو ناکام ہوئی الٹا قوم کو اپنے مختصر دور میں بہت زیادہ قرضدار بنادیا ہے، مہنگائی سر چڑ کر ناچ رہی ہے، عوام انسانی حقوق سے محروم ہیں، دہشت گردی بڑھی ہے یا چلیں بڑھائی گئی ہے مگر کاکڑ صاحب کو ملک کے متعلق سوچنے کیلئے وقت ہی نہیں ملتا وہ صرف اُن لوگوں کے بارے میں سوچتے ہیں ، جنھوں نے پاکستان کی مظلوم قوم پر انہیں مسلط کیا ہے، منتخب حکومت کو عوام سے طاقت ملتی ہے، نگراں حکومت کو اداروں سے طاقت ملتی ہے یہ سپریم کورٹ کا کام ہونا چاہیئے تھا کہ وہ نگراں حکومت کی سخت نگرانی کرئے، موجودہ نگراں حکومت کے غیرقانونی اور غیر آئینی اقدامات اور خود اس کا زائد المدت ہونا کسی بات کا نوٹس نہیں لیا گیا بلکہ کچھ معاملے میں تو جناب چیف جسٹس بھی تحریک انصاف کے خلاف پارٹی بن گئے۔
ایک بار پھر کہتا ہوں پاکستان کی بے نقاب ہوجانے والی موجودہ مقتدرہ صرف اور صرف پاکستان کا سوچے، پاکستان کو رواں سال 20 ارب ڈالر سے زائد رقم ادا کرنی ہے، مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں، بیرون ملک ہجرت بڑھ چکی ہے، کارروبار شفٹ ہورہا ہے ، سرمایہ دار غیر ملکی کرنسی پاکستان لانے پر آمادہ نہیں ہے انارکی کی صورتحال کا ملک سامنا کررہا ہے، غلطی سدھارنے کا وقت ہے جس جماعت کو جو مینڈیٹ ملا ہے ، اُس کے سپرد حکومت کریں اور اداروں کو سیاست میں مداخلت سے باز رکھا جائے ورنہ پاکستانی عوام افغان مہاجرین کی طرح دنیا بھر میں رلتے پھریں گے۔