سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والی عدالتوں کے طرز عمل کا جائزہ لینے کیلئے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ آف پاکستان بھیجا گیا تھا، جس پر کم و بیش دس سال بعد چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل بیچ نے سماعت کی سپریم کورٹ نے رائے اختیار کی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، نہ ہی ٹرائل آئین اور قانون کے مطابق ہوا، اُن کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل اور سپریم کورٹ میں اپیل میں بنیادی حقوق کو مدنظر نہیں رکھا گیا، سپریم کورٹ نے رائے دی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کا فیصلہ تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے، آئین اور قانون ایسا مکینزم نہیں فراہم کرتا کہ بھٹو کیس کا فیصلہ اب کالعدم قراردیا جائے، ذوالفقار علی بھٹو کیس میں نظرثانی درخواست خارج ہو چکی ہے، فیصلہ حتمی قرار پاچکا ہے، سپریم کورٹ کی رائے یہی ہےکہ بھٹو کو فئیر ٹرائل کا بنیادی حق نہیں ملا، صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے پانچ سوالات کئے گئے تھے مگر پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے چار جوابات دینے سے گریز کیا اور ساتھ ہی بھٹو کو پھانسی سزا پر عملدرآمد کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار نہیں دیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھٹو کی پھانسی کی سزا پر بھیجے گئے صدارتی ریفرنس پر سماعت کرکے عدالتوں کی طرف سے ملزمان کے انسانی حقوق کو نظرانداز کرنے کے خلاف رائے دیکر کم از کم اصلاح احوال کا دروازہ تو کھولا ہے، اگرچہ چیف جسٹس اور اُن کے ساتھی ججز چاہتے تو بھٹو کیس کا ٹرائل کرنے والی نچلی عدالت سے لیکر اعلیٰ عدلیہ تک کے اُن تمام ججوں کو قابلِ احتساب گردانتے جنھوں نے ملزم کے انسانی حقوق کا احترام نہیں کیا تو کہا جاتا کہ انصاف کا تقاضہ پورا ہوتا دکھائی دیا، سپریم کورٹ آف پاکستان کو یہ بھی اختیار تھا کی وہ معلوم کرئے کہ بھٹو کیس کی سماعت کرنے والے ججوں پر انسانی حقوق کو مدنظر نہ رکھنے کیلئے کوئی دباؤ تو نہیں تھا اور اگر ججوں پر دباؤ ڈالا جارہا تھا تو وہ کون طاقتور تھا جسکا ججز بھی دباؤ قبول کرنے پر مجبور تھے؟ ججز پر دباؤ نہیں تھا تو اس ہائی پروفائل کیس میں ملزم کے انسانی حقوق کی پاسداری کیوں نہیں کی گئی؟ اس موقع پر ججز کو کلین چٹ دینا مناسب معلوم نہیں ہوتا، جب پنڈورا بکس کھولا گیا ہے تو کم ازکم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اُن ججوں کو بے نقاب بھی کریں اور سزائیں بھی سنائیں، جن کی وجہ سے عدالتی نظام پر حرف آیا۔
پاکستان کی عوام اپنے خون پسینے سے کمائی ہوئی رقم پر ٹیکس دیتے ہیں، اسی ٹیکس سے ریاستی ادارے چلائے جاتے ہیں، عدالتیں نظام عدل کو پروان چڑھانے کیلئے بنائی جاتی ہیں ججوں پر عوام سے جمع کردہ ٹیکس کی بڑی رقم خرچ ہوتی ہے لیکن جب سابق وزیراعظم ملزم کی حیثیت سے ججوں کے سامنے پیش ہو تو اس کے انسانی حقوق پامال کردیئے جائیں تو اس بے توقیری کی کچھ نہ کچھ سزا تو ہونی چاہیئے، جسٹس فائز عیسیٰ اور اُن کے قابل اعتماد ججوں نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کو کالعدم قرار نہیں دیا، اگر کسی مقدمے میں قانونی تقاضہ پورے نہ ہونے پر اعلیٰ ترین عدالت بھی سزا کو علامتی طور پر سہی کالعدم قرار نہ دے سکے تو پاکستان کے نظام انصاف کو تنقید کا نشانہ تو بنایا جائے گا، ابھی تفصیلی فیصلہ لکھا جانا ہے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھانے کے تمام عوامل کو زیر غور لایا جائے گا اور اس کیس سے جڑے ہر کردار کی اچھی طرح نشاندہی کی جائے گی اور کڑا محاسبہ بھی کیا جائے گا، بھٹو کیس سے مربوط ججز کی بڑی تعداد اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہے تاہم ان کے نام کیساتھ جج کا لاحقہ لگایا جاتا ہے موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان قوم کے زخم پر مرہم رکھتے ہوئے اُن تمام ججوں سے جج کا لاحقہ واپس لیں جو ملزمان کے انسانی حقوق کو نظرانداز کرتے ہیں، مجھے یہاں شہباز گل سمیت دسیوں ہزار سیاسی کارکنان بہت یاد آرہے ہیں، جنکے انسانی حقوق کو بھی پاکستان کا عدالتی نظام نظرانداز کررہا ہے، جیف جسٹس تک اگر ہم کیڑے مکوڑوں کی آواز پہنچے تو 9 مئی کے بعد گرفتار کئے گئے سیاسی کارکنان کے انسانی حقوق کے بارے میں بھی سوچین بھٹو تو اس دنیا سے جاچکے ہیں مگر یہ دسیوں ہزار لوگ جرم ثابت ہوئے بغیر قید سخت کاٹ رہے ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں، خدا کیلئے آپ اِنکی طرف دیکھیں اور اِن کے انسانی حقوق کیلئے بھی حکم جاری کریں۔