تحریر: محمد رضا سید
دمشق میں حکام نے بتایا ہے کہ شام کے سابق صدر بشار الاسد کی بعث پارٹی اور حکومت کی اعلیٰ شخصیات کی گرفتاری کے عمل کو تیز کرنے کیلئے ملک گیر کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا ہے، بشارالاسد رجیم سے وابستہ رہنماؤں کی گرفتاریوں کیلئے ہیئت تحریر الشام کے انٹیلی جنس ڈویژن کے کور گروپ کواسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسیوں موساد، شین بیت، امان، یونٹ 8200 اور سیرت متکل کا غیرمعمولی تعاون حاصل ہے، مذکورہ اسرائیلی ایجنسیوں نے اس ملک میں زمینی انٹیلی جنس نظام قائم کیا ہوا ہے جبکہ دمشق کی موجودہ انتظامیہ کی اس صورتحال سے واقف بھی ہے اور مطمئن بھی ہے، دمشق میں تحریر الشام اور دیگر مسلح گروہوں پر مشتمل انتظامیہ کیساتھ امریکہ، ترکیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی خفیہ ایجنسیاں پہلے ہی انٹیلی جنس شیئرنگ اور تکنیکل تعاون کررہی ہیں ہے۔
متحدہ عرب امارات سے موصولہ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسد رجیم سے وابستہ گرفتار شدگان میں بریگیڈیئر جنرل رامی اسماعیل، وسیم الاسد، میزر سوان، میجر جنرل موفق الحیدر، کرنل طائر حسین اور فضائیہ کے سابق بریگیڈیئر جنرل غازی سلمان شامل ہیں جن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے اپنے باغیوں کے خلاف جنگ میں بشارالاسد کی مدد کی تھی، 14 مئی 2025ء کو ریاض میں امریکی صدر ٹرمپ اور احمد الشارع کی ملاقات کے دوران اسد رجیم سے وابستہ افراد کی تلاش اور اُن کی اسکرننگ کا معاملہ بھی زیر غور رہا تھا، امریکی حکام نے اس سے قبل احمد الشارع کو دی گئی بریفنگ میں بتایا تھا کہ روسی اسٹیبلشمنٹ نے وقت گزرنے کیساتھ اسد رجیم کی عسکری اور سیاسی قیادت کو منظم کرنا شروع کردیا ہے جبکہ سیاسی نمائندگی کیلئےعرب قوم پرست بعث پارٹی کے حامیوں کو پلیٹ فارم مہیا کرنے کا پلان بنایا جا چکا ہے، اس بریفنگ میں بتایا گیا کہ تحریر الشام کو سیاسی حمایت حاصل نہ ہونے کیوجہ سے زیادہ دیر تک الیکشن سے گریز ممکن نہیں اور روس، یوکرین جنگ سے فارغ ہوتے ہی شام میں سیاسی نمائندگی کیلئے انتخابات کرانے کے مطالبے پرپورا زور لگا دے گا کیونکہ شام میں روس کی فوجی موجودگی برقرار رکھنے کیلئے ماسکو اس مطالبے سے گریز نہیں کرئیگا۔
دمشق میں حکام نے 21 جون کو اسد رجیم سے وابستہ سات مطلوب افراد کی گرفتاری کا اعلان کیا، جن میں زیادہ تر اسد رجیم کے دوران سکیورٹی اداروں سے وابستہ رہے تھے، اعلان کے مطابق ان میں سے چار علوی اورباقی سنی حنفی ہیں، اسد کی قیادت میں بعث پارٹی کی حکومت کے خلاف 2011 کی بغاوت کے باوجود وہاں حکومت کی سطح پر فرقہ وارانہ تعصب ناپید تھا اور اہم سکیورٹی عہدوں پرتعیناتی مسلک یا عقیدہ کی بنیاد پر نہیں کی جاتی تھی، شام میں 25 فیصد علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے شہری قبائلی بنیاد پر اسد حکومت کے حامی ضرور تھے مگر انہیں حنفی دینی اسلوب پرعمل کرنے والے عرب قوم پرستوں کی زیادہ حمایت حاصل تھی، اگر امریکہ، مغربی ممالک، ترکیہ اور عرب حکومتوں کے ذریعے شام میں دہشت گردی کو سپورٹ نہ کیا جاتا اور براہ راست غیرملکی فوجی مداخلت نہ کی جاتی تواسد رجیم کو تبدیل کرنا آسان نہیں تھا۔
امریکی اور یورپی پابندیوں سے رفتہ رفتہ آزادی حاصل کرنے والی شام کی موجودہ انتظامیہ کیلئے سیاسی استحکام اب بھی ایک اہم مسئلہ ہے، مارچ 2025ء سے ابتک ایچ ٹی ایس اور اتحادی مسلح گروہ نے کم از کم 1300 علوی شہری ہلاک کئے ہیں، دمشق میں علویز کی رہائشی اور تجارتی املاک پر قبضہ کیا جارہا ہے، شام کی 10 فیصد مسیحی آبادی میں بڑی تیزی سے کمی آئی ہے جوکہ گھٹ کر 3.4 فیصد رہ گئی ہے، اس کے باوجود شام میں رہ جانے والے مسیحی اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں، موجودہ دمشق انتظامیہ کے دو مسلم ممالک لبنان اور عراق سے تعلقات کشیدہ ہیں، ترکیہ کی سرحدیں اور کرد علاقوں میں دمشق کی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے، کرد ملیشیا انقرہ سے احکامات لیتی ہیں، اسرائیل نے جولان کے بفرزون پر قبضہ کرچکی ہے،عالمی سطح پر تسلیم شدہ جولان کے بفرزون پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کرنے کے بعد وہاں تیزی کیساتھ فوجی تنصیبات کی تعمیر شروع کردی ہے، جس کے بعداسرائیلی فوجین دمشق کے مضافات میں زمینی فوجی مہم انجام دینے لگی ہیں، شام کی فضائی حدود پر اسرائیل، امریکہ اور روس کی اجارہ داری ہے، اسرائیلی فضائیہ دمشق سمیت متعدد شہروں کے اطراف و اکناف آزادانہ فضائی مہم انجام دے کر شام کی خودمختاری کو مسلسل چیلنج کررہا ہے، اسرائیل کو شام کے دروز فرقے کی صورت میں ایک اہم اتحادی میسر آگیا ہے، جنہیں مسلح مذہبی شدت پسند گروہوں کی جانب سے قتل عام کے خطرات لاحق ہوگئے تھے جس کے بعداس فرقےسے وابستہ خاندانوں نے اسرائیل کے زیر قبضہ شامی علاقوں میں اجتماعی ہجرت کرکے اسرائیل کی پناہ حاصل کرلی،دروز فرقہ شام کے علاوہ لبنان اور اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں جسے تل ابیب شمالی اسرائیل کہتا ہے آباد ہیں، یہ فرقہ اپنے کو اسماعیلی فرقے کی ایک شاخ قرار دیتا ہے مگر اسماعیلی فرقے کے دو بڑے گروہ دروز فرقے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔
اسرائیل کیلئے اب مشکل نہیں ہے کہ وہ جب چاہے دمشق پر قبضہ کرلے لہذا احمد الشارع کی انتظامیہ امریکی صدر ٹرمپ کی ہدایت پر ترکیہ کی مدد سے اسرائیل سے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں میں مصروف ہے، شام اور اسرائیل کے تعلقات 1948ء کے بعد سے کشیدہ چلے آرہے ہیں، اسرائیل نے جون 1967ء میں شام کی جولان ہائٹس پر قبضہ کرلیا اور 14 دسمبر 1981 کو تل ابیب حکومت نے جولان ہائٹس کو اسرائیل کا حصّہ قراردیدیا جبکہ 25 مارچ 2019 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جولان ہائٹس پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرلیا، دمشق پر تحریر الشام اور دیگر مسلح گروہوں پر مشتمل انتظامیہ کے برسراقتدار آنے کے بعد جولان کے مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد شام کی سلامتی اسرائیل کے مرہون منت بن گئی ہے، اسرائیلی میڈیا کے مطابق شام اور اسرائیل نے ممکنہ طور پر معمول کے تعلقات قائم کرنے کیلئے ایک معاہدے تک پہنچنے کیلئے براہ راست مذاکرات کررہے ہیں، جس میں یقیناً جولان کے مستقبل کو زیر غور لایا گیا ہوگا لیکن شام کی کمزور اور کٹھ پتلی الشارع انتظامیہ جولان پر اسرائیلی قبضہ ختم کرانے کی پوزیشن نہیں لے سکتی، اسرائیل اور شام کے تعلقات کا قیام روس کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا کیونکہ اس طرح شام میں امریکی اور یورپی کردار بڑھ جائے گا،یہی وجہ ہے کہ روس میں مقیم شام کے سابق صدر بشارالاسد اور اُن کے نائبین کو متحرک کردیا گیا ہے، جس کے بعد شام میں سابق حکومت کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے یہی روس کی منشا بھی ہے کہ احمد الشارع کے مربی ملکوں کو فری ہینڈ نہ دیا جائے اورشام میں ایک مضبوط اپوزیشن قائم کی جاسکے، شام کی موجودہ صورتحال میں یقیناً اس ملک کا سیاسی سکون برباد ہوگا اور شام میں ایک بار پھر خانہ جنگی کی شدت بڑھے گا اور جس کے نتیجے میں ایک بار پھر عام لوگوں کا خون بہے گا۔
With every new follow-up
Subscribe to our free e-newsletter
بدھ, جولائی 9, 2025
رجحان ساز
- ضلع بنوں کے علاقے میریان اور ہوید میں دو الگ الگ ڈرون حملوں میں خاتون جاں بحق اور 3 زخمی
- اب کسی سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے بلکہ صرف سڑکوں پر احتجاج ہوگا، عمران خان
- ایف آئی اے نے عدالت سے سابق وزیراعظم سمیت 27 یوٹیوب چینلز کو بلاک کرنیکا حکم لے لیا !
- عالمی عدالت نے طالبان رہنما ہیبت اللہ اور چیف جسٹس حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے !
- ٹرمپ نے ایران پر پابندیاں اٹھانےکا عندیہ دیدیا غزہ کے فلسطینیوں کو بیرون ملک بسانے کا انکشاف
- ایران کے خلاف اسرائیلی و امریکی جارحیت غیر قانونی تھی جس کا احتساب ہونا چاہئے، عباس عراقچی
- بحیرہ احمر میں یمنی فوج کی بڑی جنگی کارروائی برطانوی بحری جہاز پر آگ بھڑک اُٹھی، عملے کو بچالیا گیا
- اسرائیلی دھمکیوں کے باوجود حزب اللہ ہتھیار ڈالے گی اور نہ ہی پسپائی اختیار کریئگی،قیادت کا فیصلہ
شام دوبارہ خانہ جنگی کی شدت طرف بڑھ رہا ہے دمشق کے کمزور حکمرانوں کو اسرائیل سے توقعات
اسرائیل شام تعلقات روس کیلئے قابل قبول نہیں اس طرح شام میں امریکی اور یورپی کردار بڑھ جائے گا اسی وجہ سے روس نے سابق صدر بشارالاسد اور اُن کے نائبین کو متحرک کردیا ہے