تحریر: محمد رضا سید
غاصب اسرائیلی حکومت نے جمعرات کے دن مقبوضہ مغربی کنارے میں 22 نئی یہودی بستیوں کی منظوری دے دی ہے، اسرائیل کے شدت پسند یہودی وزیر خزانہ نے مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر نئی بستیوں کی تعمیر کا منصوبہ پیش کیا، اقوامِ متحدہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک سوائے امریکہ اور بعض یورپی ریاستوں کے فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں تاہم اسرائیل عالمی مخالفت کے باوجود، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور جرمنی کی بھرپور حمایت کے سائے میں 1967ء سے مسلسل یہودی بستیاں تعمیر کر رہا ہے، 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے پر قبضہ کرلیااور اسی برس کے اختتام پر غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر کے منصوبوں کا آغاز ہوا، 1968ء میں کریات اربع میں پہلی یہودی بستی کے تعمیری منصوبے کی منظوری دی گئی اور اسی برس مقبوضہ علاقے الخلیل کے قریب عملی طور پر بستی کی تعمیر بھی شروع کر دی گئی، 1979ء میں پہلی مرتبہ اقوام متحدہ نے نوتعمیر شدہ یہودی بستیوں کے خلاف قرارداد نمبر 446 منظور کی گئی جس میں مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیا، اقوام متحدہ نے اسی سال قرارداد 452 منظور کی جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں غیرقانونی یہودی بستیوں کی تعمیر روک دے مگر اسرائیل نے امریکی اور یورپی ملکوں کی حمایت حاصل ہونے کی بناء پر یہودی بستیوں کی تعمرات کے خلاف قرارداد پر عمل نہیں کیا،
1977ءمیں اسرائیل میں میناچم بیگن کی قیادت میں دائیں بازو کی جماعت لیکود پارٹی برسرِ اقتدار آئی، جس نے یہودی بستیوں کی تعمیر کو اپنی حکومتی پالیسی کا حصہ بنا لیا اسی کے نتیجے میں1980 ء اور 1990ء کی دہائیوں میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر میں غیر معمولی اضافہ ہوا، 1993ء میں اوسلو معاہدہ کے باوجود یہ عمل مسلسل جاری رہا، اقوامِ متحدہ نے 1980ء میں قرارداد نمبر 465 منظور کی، جس میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں قائم تمام یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور یہ سلسلہ2016ء تک جاری رہا، اسی سال جب صدر باراک اوباما نے دوسری مدت کا آغاز کیا تو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف پیش کی گئی ایک قرارداد کو امریکہ نے ویٹو نہیں کیا، اس قرارداد میں یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسرائیل سے تمام تعمیراتی سرگرمیاں فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا، اقوامِ متحدہ نے اگرچہ متعدد قراردادیں منظور کیں، تاہم ان پر عمل درآمد کیلئے مؤثر میکنزم بنانے میں ناکام رہی، کیونکہ ہر بار امریکہ کے ویٹو کی تلوار لٹکتی رہی، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے عالمی اداروں کی مخالفت کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا، 29مئی 2025ء کو اسرائیلی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ 22 نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف اسرائیلی انسانی حقوق کے اداروں نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ تل ابیب کے اس فیصلے سے اسرائیل کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے، اور اسرائیل پر مخصوص نوعیت کی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
حکمران دائیں بازو کے اتحاد میں شامل انتہائی قوم پرست رہنما بیزلیل اسموٹریچ جومغربی کنارے پر اسرائیلی خودمختاری کے حامی ہیں نے ایکس پر لکھا کہ یہ بستیاں شمالی مغربی کنارے میں واقع ہوں گی، اسرائیلی میڈیا کے مطابق وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ ان نئی بستیوں میں موجود غیر رسمی فوجی چوکیوں کو قانونی حیثیت دی جائے گی اور ان کی نگرانی میں بستیوں کی تعمیر شروع کی جائے گی، مغربی ممالک اور عرب لیگ کی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی جو مغربی کنارے میں محدود حکمرانی کی حامل ہے اورغزہ میں برسرِ اقتدار حماس دونوں نے اسرائیلی فیصلے کی سخت مذمت کی ہے،فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو رودینہ نے نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے منصوبے کو اسرائیل کے خطرناک اقدامات میں ایک اضافہ قرار دیتے ہوئے تل ابیب پر الزام عائد کیا کہ وہ خطے کو مسلسل تشدد اور عدم استحکام کی طرف دھکیل رہا ہے، انتہا پسند اسرائیلی حکومت ہر ممکن طریقے سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے، انہوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں شروع کیے گئے یہودی بستیوں کے توسیعی منصوبوں کو روکنے کیلئےمداخلت کرے،عالمی برادری ،خاص طور پر یورپی یونین پہلے ہی ان بستیوں کو ایک آزاد فلسطینی ریاست جو مشرقی بیت المقدس، غزہ اور مغربی کنارے پر مشتمل ہو کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دے چکی ہے۔
برطانیہ، فرانس اور کینیڈا پہلے ہی اسرائیل کو خبردار کر چکے ہیں کہ اگر مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری جاری رہی تو اسرائیل کے خلاف مخصوص پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں، برطانوی وزیر برائے مشرقِ وسطیٰ ہامش فالکنر نے نئی بستیوں کی منظوری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ایک آزاد فلسطینی ریاست کی راہ میں جان بوجھ کر رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے، ان کے مطابق بین الاقوامی قانون کے تحت یہودی آبادیاں غیر قانونی ہیں، جو دو ریاستی حل کو خطرے میں ڈالتی ہیں اور اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے مزید تنہائی میں دھکیل سکتی ہیں، انسانی حقوق کی نمایاں اسرائیلی تنظیم بی تسلیم نے دائیں بازو کی حکومت پر فلسطینی علاقوں میں بستیوں کی تعمیر کو زمین کی چوری قرار دیا اور اس پالیسی کو مغربی کنارے میں نسلی صفائی اور یہودی بالادستی کے فروغ کی کوشش قرار دیا، تنظیم نے عالمی برادری کو اسرائیلی جرائم میں بالواسطہ شریک ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
اسرائیلی فوج کے سابق اہلکاروں کی نمائندگی کرنے والے گروپ بریکنگ دی سائیلنس نے انتباہ کیا ہے کہ فوجی چوکیوں کو قانونی حیثیت دینے سے شدت پسندیہودی آبادکاروں کو فلسطینیوں کے خلاف جرائم کرنے کا مزید موقع ملے گا، گروپ نے کہا کہ یہودی آبادکاری میں وسعت دینانظریاتی شدت پسندی کی عکاس ہے جس نےفلسطینیوں کی زمین پر قبضے کو بڑھاوا دیا ہے، یہودی آباد کاروں کی نمائندہ تنظیم یشا کونسل کے چیئرمین اور وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے قریبی اتحادی یسرائیل گانز نے کہا ہے کہ 22 نئی یہودی بستیوں کی تعمیر سے فلسطینی اتھارٹی کو ریاست میں بدلنے کی کوششوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، گانز نے اسے تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پیغام واضح ہے کہ یہودی یہاں صرف رہنے کیلئے نہیں بلکہ اسرائیلی ریاست کے تحفظ اور استحکام کیلئے موجود ہیں۔
مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں 27 لاکھ فلسطینیوں کے درمیان 7 لاکھ یہودیوں کو بسایا گیا تاکہ اِن علاقوں میں آبادی کے توازن کو تبدیل کیا جاسکے یہ وہ علاقے ہیں جن پر اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں اردن سے چھین لیاتھا، بعد ازاں اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو ضم کر لیا، جسے دنیا کی غالب اکثریت نے تسلیم نہیں کیا تاہم مغربی کنارے کو تاحال باضابطہ طور پر اسرائیلی ریاست میں شامل نہیں کیا گیا، غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ جو اب اپنے 20 ویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے کے بعد سے مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کی سرگرمیوں میں تیزی دیکھی گئی ہے، اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں، جبکہ یہودی آبادکاروں کے حملوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے، حماس کے رہنما سامی ابو زہری نے خبررساں ایجنسی رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ تل ابیب کا 22 نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کا حالیہ فیصلہ درحقیقت فلسطینی عوام کے خلاف نیتن یاہو کی سربراہی میں جاری جنگ کا تسلسل ہے، ابوزہری نے امریکہ اور یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی فیصلے کے خلاف جوابی کارروائی کریں، وگرنہ دو ریاستی حل کا خواب ہمیشہ کیلئے دفن ہو جائے گا، یقین رکھا جائے کہ تل ابیب کی جانب سے 22 نئی یہودی بستیوں کی تعمیر، خطے میں ایک اور نئے بحران کو جنم دے گی، جو امن کی خواہش رکھنے والی عالمی قوتوں کو کمزور اور شدت پسندی کو مضبوط کرے گی۔
With every new follow-up
Subscribe to our free e-newsletter
پیر, جون 2, 2025
رجحان ساز
- غذائی امداد کی تقسیم کا امریکی ادارہ مشکوک! امداد کے متلاشی فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ
- ایشیاء پسیفک شنگریلا ڈائیلاگ میں جنرل ساحر شمشاد مرزا کا خطے میں ایٹمی تصادم کا خطرے کا اظہار !
- بِٹ کوائن مائننگ بجلی فراہمی پر آئی ایم ایف کا اظہار تشویش مئی میں ٹیکس وصولیوں میں کمی کا سامنا
- یمن نے اسرائیلی فضائی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے فضائی دفاعی نظام کو اپ گریڈ کرنیکا اعلان کردیا
- امریکہ ممکنہ ایٹمی جنگ گولیوں کے بجائے تجارت کے ذریعے روکنے میں کامیاب ہوا، ڈونلڈ ٹرمپ
- بلوچستان میں مسلح افراد کی ہولناک مسلح کارروائی کے دوران ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہدایت بلیدی ہلاک
- ایران، پُرامن جوہری ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے عزم پر قائم مگر ایٹمی ہتھیار کی خواہش نہیں !
- سعودی عرب نے پاکستان، بنگلہ دیش، ہندوستان سمیت متعدد ملکوں کیلئے بلاک ویزا پر پابندی لگادی
مقبوضہ فلسطین میں 22 نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کا اسرائیلی منصوبہ خطے میں نیا بحران کا سبب بنے گا
حماس کے رہنما سامی ابو زہری کے مطابق تل ابیب کا 22 نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کا حالیہ فیصلہ درحقیقت فلسطینی عوام کے خلاف نیتن یاہو کی سربراہی میں جاری جنگ کا تسلسل ہے