تحریر: محمد رضا سید
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز وہی کیا جس کا پوری دنیا یقین تھا،جب اُنھوں نے ایران پر حملے کے بارے میں دو ہفتے بعد فیصلہ کرنے کا اعلان کردیا تھا تو ایران کے ایک برادر ملک کی اہم شخصیت کو بتادیا گیا تھا کہ واشنگٹن ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات کو ایران کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کرنے جارہا ہے اور یہ بات ایران کی مقتدرہ کو بتائی جاچکی تھی، جسکی وجہ سے دنیا ایٹمی تابکاری پھیلنے کے ایک بڑے سانحے سے بچی رہی، ایسا اس لئے کیا گیا کہ ایٹمی تابکاری پھیلتی تو خطے میں 40 ہزار امریکی فوجیوں کو بھی متاثر کرتی ، خفیہ ذرائع سے ایرانی مقتدرہ مٖربی ملکوں کو آگاہ کرچکی تھی کہ اگر ایرانی شہری تابکاری کا شکار ہوئے تو اس کے اثرات تل ابیب تک پہنچیں گے، اس کے امکان کو مغربی انٹیلی جنس کمیویٹی اس سے قبل بھی مغربی حکومتوں کو بتا چکی ہے کہ ایران اس قابل ہے کہ وہ اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بناسکتا ہے جبکہ دوسرا منظر نامہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے وہ یہ کہ وار ہیڈز کی جگہ تابکار مواد کو تل ابیب پر فائر کیا جاسکتا ہے۔
]اس معاملے میں دیگر پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے مگر انسانیت کیلئے ایسے خطرناک اشوز کو زیر قلم نہیں لانا چاہیئے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پرے درجے کے جھوٹے اور چکما دینے والے غیر سنجیدہ انسان ہیں مگر وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کا نام تاریخ میں ایٹمی تابکاری پھیلانے کا سبب بننے والے انسانیت دشمن شخص کے طور پر درج ہو یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں پھیلی ہوئی یہودی لابی کے بڑے اصرار پر صدر ٹرمپ نے مددر آف آل بم ایران کے ایٹمی اثاثوں پر استعمال تو کرلیا مگر مغرب کی یہودی لابی پر یہ بھی واضح کردیا کہ اس سے زیادہ امریکہ سے توقع نہ رکھی جائے، امریکی حملوں کے بعد ایران کا ردعمل نہایت عمدہ تھاتہران نے خلیج فارس میں امریکی اثاثوں پر حملہ کرنے کے بجائے اسرائیل پر انتہائی خطرناک جوابی حملے کرکے باور کرایا کہ ایران یہودی ریاست کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اتوار کے ایرانی ایٹمی اثاثوں پر حملوں کے بعد سفارتکاری کا عمل تیز کردیا گیا ہے، یاد رہے کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی بتا چکے ہیں کہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان سفارت کاری کے چھ ادوار میں دونوں ملک ایک معاہدے تک پہنچنے کے قریب پہنچ چکے تھے جسے یہودی ریاست نے ناکام بنانے کیلئے جمعہ 13 جون کو ایران پر حملہ کردیا اور سفارتکاری کا پورا عمل سبوتاژ کردیا ۔
امریکی صدر نے مغرب کے اندر صیہونی لابی کے زبردست دباؤ پر ایران کے ایٹمی اثاثوں پر بی-2 بمبار طیاروں سے براہ راست حملہ کرکے اسرائیل کی ایک خواہش تو پوری کردی ہے مگر اب سفارتکاری کو موقع دینے کے علاوہ واشنگٹن کے پاس کوئی اور پتا بچا نہیں ہے کیونکہ روس اور چین پس پردہ سفارتکاری کے ذریعے امریکہ کو باور کرارہے ہیں کہ وقت تیزی سے آگے کی طرف بڑھ رہا ہے،مشرق وسطیٰ میں حالات کو جلد معمول پر نہیں لایا گیا تو ایران انتہائی قدم اُٹھانے پر مجبور ہوسکتا ہے، جس سے دنیا خطرناک جنگ کی طرف بڑھ سکتی ہے، چین روس اور بعض یورپی ممالک اس جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن وہ ایران کو ہرگز تنہا ہونے کا احساس نہیں دلا سکتے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اعلان کیا کہ یہ حملے ایک شاندار فوجی کامیابی تھے اور یہ کہ ایران کی جوہری افزودگی کی اہم تنصیبات کو اور مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے، یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے حملوں کی تاثیر کے بارے میں غلط ہیں، امریکہ نے اصفہان اور نطنز کے دو مقامات ایٹمی مقامات ہر حملہ کیا، ایران کی اِن ایٹمی تنصیبات پر اس سے قبل اسرائیل بھی حملہ کرچکا ہے، فردوپر امریکی حملے نئے تھے لیکن نتائج کے اعتبار سے بے اثر رہے ہیں ،سیٹلائٹ امیجز میں دکھایا گیا ہے کہ موجودہ پانچ میں سے صرف ایک ایٹمی پلانٹ کے داخلی اور ایک خارجی راستہ متاثر ہوا ہے،مرکزی سائٹ درجنوں میٹر زیر زمین ہیں اور ایک پہاڑ سے محفوظ ہیں کسی بھی نقصان سے محفوظ ہیں، ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ان تنصیبات کو افزودہ یورینیم اور افزودگی کے عمل میں استعمال ہونے والی اہم ٹیکنالوجی سے خالی کر دیا گیا تھا۔
فردو ایٹمی پلانٹ کو دور سے فلمانے والے دھوئیں یا آگ رہائشی کمپلیکس کا ہے جہاں پلانٹ کے ملازمین رہا کرتے تھے اور جسے ٹرمپ کی جانب سے لکھے گئے خط کے بعد خالی کرانا شروع کردیا تھا، جوہری تنصیب کے قریب ترین شہر قم سے آنے والی رپورٹوں میں دیکھا گیا ہے کہ شہر کےمعمولات نارمل ہیں لوگ روزمرہ کے کاموں کو انجام دے رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے ساتھ 13 جون کو اسرائیل کی طرف سے جنگ شروع کرنے کے 10 دن بعد جنگ کو ایک حقیقت سمجھ چکے ہیں اور وہ ہر بازی لانے کیلئے تیار نظر آرہے ہیں، ایران کی وزارت صحت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ایران کے خلاف جاری فضائی مہم کے دوران کم از کم 400 شہری ہلاک اور 2000 زخمی ہو چکے ہیں۔
ایران کے خلاف اسرائیل کے حملوں کے بارے میں امریکی وضاحت کہ وہ اِن حملوں کے پیچھے نہیں ہے سفید جھوٹ ہے، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ترکیہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے دوران مسلم ملکوں کو بتایا کہ اسرائیلی حملے امریکہ کی جانب سے ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی پر عملدرآمد کا حصّہ تھے مگر امریکہ اس مرتبہ بھی اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکا، اتوار کی امریکی جارحیت کے بعد ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے کابینہ کے اجلاس کے دوران کہا کہ تہران جانتا تھا کہ امریکہ ہی اسرائیل کی ایران کے خلاف جنگ میں مدد کر رہا ہے، امریکہ کے براہ راست حملوں کے بعد دنیا بھی اس بات کو سمجھ چکی ہے کہ واشنگٹن ہی اصل اکسانے والا ہے۔
منگل, جولائی 1, 2025
رجحان ساز
- جو شخص بھی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کو دھمکی دیتا ہے وہ خدا کا دشمن ہے، شیعہ مرجع کا فتویٰ
- ٹرمپ کی تجارتی جنگ 9 جولائی آخری دن ہوگا امریکی صدر نے محصولات نافذ کرنے کا اعلان کردیا
- جرمن وزیر خارجہ اسرائیل میں تباہ شدہ عمارتیں دیکھ کر غم زدہ تل ابیب کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا
- اسرائیلی فوج غزہ میں غیر معمولی بڑی فوجی کارروائی کی تیاری کررہی ہے 5 عسکری بریگیڈز متحرک
- امریکہ نے حملہ کرکے سفارتکاری و مذاکرات سے غداری کی فی الحال مذاکرات نہیں ہوسکتے، ایران
- غاصب اسرائیل نے آذربائیجان کی فضائی حدود کو حملہ آور اور مائیکرو جاسوس ڈرونز کیلئے استعمال کیا؟
- امریکہ نے اسرائیل پر میزائل اور ڈرونز حملے بند کرنے کی درخواست کی تھی، میجر جنرل عبدالرحیم
- ایران کا 408 کلوگرام افزودہ یورینیم محفوظ ہے جو متعدد ایٹمی ہتھیاروں کیلئے کافی ہے، فنانشل ٹائمز