کراچی میں غیر مرئی قوتیں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے جب چاہتی ہیں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا بٹن آن کر دیتی ہیں اور بد نصیب شہر کراچی ایک بار پھر ہر قسم کی دہشت گردی کا نشانہ بن جاتا ہے، عمومی طور پر قانون نافذ کرنے والے ادارے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی دہشت گردی کو ایران اور افغانستان سے جوڑتے ہیں جبکہ قوم پرستی پر مبنی دہشت گردی کو ہندوستان سے منسلک قرار دے کر اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں، سندھ پولیس کے محکمۂ سی ٹی ڈی نے ایران سے مبینہ طور پر آپریٹ ہونے والی کالعدم عسکریت پسند تنظیم کے دو ارکان معصوم رضا اور اسرار حسین، کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے، ڈپٹی انسپکٹر جنرل سی ٹی ڈی غلام اظفر مہیسر نے میڈیا کو بتایا کہ مذہبی جماعت کے کارکنان قاری انس اور قاری عبدالرحمٰن کی حالیہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے، اور یہ گروہ پڑوسی ملک سے آپریٹ ہو رہا تھا، ڈی آئی جی مہیسر کے مطابق ملزم معصوم رضا بیس روز قبل پاکستان آیا تھا، اس کے قبضے سے ایک ہِٹ لسٹ بھی برآمد ہوئی، جس میں مزید اہداف کو نشانہ بنانے کی تفصیلات درج تھیں، پولیس کی تفتیش کے مطابق گرفتار ملزمان نے حالیہ دنوں میں گلستانِ جوہر کے سمامہ شاپنگ مال کے قریب قاری انس اور مئی 2025ء میں شیرپاؤ کالونی میں قاری عبدالرحمٰن کو قتل کیا تھا۔
پولیس کے مطابق یہ نیٹ ورک پڑوسی ملک سے آپریٹ ہو رہا تھا اور ملزمان کے سہولت کاروں کی بھی نشاندہی کر لی گئی ہے، جن پر ٹیرر فنانسنگ کے مقدمات درج کیے جائیں گے، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی غلام اظفر مہیسر نے گارڈن ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ ملزمان سے دو ہینڈ گرنیڈ اور دو پستولیں برآمد ہوئیں، ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں ان دہشت گردوں کے دو سے چار سلیپر سیلز موجود ہیں، جہاں اسلحہ ڈمپ کیا گیا ہے، یہ امر غور طلب ہے کہ جب پولیس کو معلوم ہے کہ دو یا چار سلیپر سیلز میں اسلحہ ذخیرہ ہے تو پھر صرف دو ہینڈ گرنیڈ اور دو پستولیں ہی کیوں برآمد کی گئیں؟ تمام اسلحہ کیوں ضبط نہیں کیا، پولیس کے مطابق دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے بعد ہتھیار چھپا دیتے ہیں اور بچاری پولیس اُس اسلحے کو برآمد کرنے سے قاصر رہتی ہے جو کراچی کے شہریوں کا خون بہانے والا ہے، شہر میں حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے سی ٹی ڈی حکام کا کہنا ہے کہ نیو کراچی میں ہونے والی وارداتوں میں یہی گروہ ملوث ہے یا نہیں، اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم پولیس نے یقین دلایا ہے کہ تفتیش جاری ہے اور ملوث گروہ کی نشاندہی ہو چکی ہے، جسے جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
ڈی آئی جی مہیسر کے مطابق سندھ حکومت نے سی ٹی ڈی کیلئے علیحدہ پراسیکیوٹر مقرر کر دیا ہے، جس سے عدالتوں میں مقدمات چلانے کے معیار میں بہتری آئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے اچھا کام زیادہ اجاگر نہیں ہوتا، منفی چیزیں تیزی سے پھیل جاتی ہیں حالانکہ سی ٹی ڈی کی کارکردگی پہلے کے مقابلے میں واضح طور پر بہتر ہوئی ہے، ڈی آئی جی نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے حیدرآباد میں دو مقدمات میں ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی جبکہ کراچی میں بھی ایک ہفتے کے دوران تین ملزموں کو دہشت گردی کے کیسز میں عمر قید اور جرمانے کی سزائیں دی گئی ہیں، تاہم انہوں نے اس تلخ حقیقت پر بات نہیں کی کہ دہشت گردی کی عدالتوں کی جانب سے سنائی گئی سزائیں اکثر اعلیٰ عدالتوں میں کالعدم قرار دے دی جاتی ہیں کیونکہ پولیس کی تفتیش کو ناقابلِ اعتبار سمجھا جاتا ہے، پولیس کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ غیر مرئی قوتوں کے اشاروں پر مختلف افراد کو حراست میں لیتی ہے اور ناقص تفتیش کے ذریعے ملزمان کو قصوروار ٹھہراتی ہے، مگر ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا، فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی کارروائیوں کو ایران اور افغانستان سے جوڑ کر پولیس بری الذمہ ہو جاتی ہے کیونکہ ایسے الزامات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے مؤثر تفتیش کے راستے مسدود کر دیتے ہیں۔
جمعرات, نومبر 13, 2025
رجحان ساز
- پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی عدالت میں کار بم دھماکہ 12 افراد جاں بحق 27 زخمی ہوئے
- ہندوستانی دارالحکومت کے ریڈ زون میں لال قلعہ کے قریب دھماکہ نئی دہلی اور ممبئی میں ہائی الرٹ
- علاقائی تبدیلیوں کے تناظر میں ایرانی اسپیکر کا دورۂ پاکستان کیا باہمی معاہدوں پر عمل درآمد کیا جائیگا
- غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف موقف نے ممدانی کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا !
- امریکہ اور قطر کے مشترکہ فضائی دفاعی کمانڈ پوسٹ کا افتتاح خطے میں نئی صف بندی کی شروعات !
- پاکستان، ہندوستان کشیدگی دوران سنگاپور اور دبئی کے ذریعے دس ارب ڈالر کی تجارت ہورہی ہے !
- اسرائیل کی حمایت ترک کیے بغیر امریکہ سے مذاکرات کا کوئی امکان نہیں، آیت اللہ خامنہ ای کا اعلان
- پیپلزپارٹی کا امتحان شروع 27 ویں ترمیم کیلئے 18ویں آئینی ترمیم کو قربان کیلئے بلاول بھٹو ہونگے؟

