تحریر محمد رضا سید
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے پیر 13 اکتوبر 2025ءاس لحاظ سے خوشیوں بھرا تھا ، وہ امریکہ کے دوسرے امریکی صدر شمار ہونگے جنہوں نے اسرائیلی کنیسٹ(پارلیمنٹ) سے دوسری مرتبہ خطاب کیا، ٹرمپ سے پہلے جن امریکی صدور نے اسرائیلی پارلیمان سے خطاب کیا اُن میں پہلے جمی کارٹر تھے جنہوں نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ٹھیک ایک ماہ بعد 12 مارچ 1979ءکو خطاب کیا، اسرائیل کی سالمیت کے حوالے سےیہ نازک موقع تھا ،جب عرب ملکوں کے علاوہ ایران نے اسرائیل کے جائز وجود کا انکار کردیا تھا۔
بل کلنٹن دوسرے امریکی صدر تھے جنہوں نے29 اکتوبر 1994ء میں اسرائیلی کینسٹ(پارلیمنٹ) سے خطاب کیا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس لحاظ سے ممتاز ہیں کہ اُنھوں نے اسرائیلی پارلیمنٹ سے دوسری مرتبہ خطاب کیا ،سیاسی مبصرین اسے اسرائیلی ریاست کی جانب سے ٹرمپ کی خدمات کا اعتراف قرار دیتے ہیں، جیسا کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے ریمارکس سے واضح ہوتا ہےجو اُنھوں نے ٹرمپ کے خطاب سے قبل دیا، نیتن یاہو نے کہا کسی بھی امریکی صدر نے اسرائیل کیلئے اتنا کچھ نہیں کیا جتنا ٹرمپ نے کیا ہے اور جیسا کہ میں نے واشنگٹن میں کہا تھا صدر ٹرمپ کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔
اسرائیل میں ٹرمپ کے دورے کے دوران جشن کے ماحول سے ظاہر تھا کہ زیادہ تر اسرائیلی اس بار اپنے وزیرِ اعظم کی بات سے متفق تھے، کنیسٹ کے اندر اور گلیوں میں لوگ رقص کرتے نظر آئے، ان کے سروں پر ٹرمپ دی پیس پریذیڈنٹ کے نعرے والے سرخ ٹوپی نما ہیڈز تھے، جو ٹرمپ کے میگا(دوبارہ امریکہ کوشاندار بنائیں) سے ماخوذ ہے کیونکہ امن ہی وہ چیز ہے جس کی آج زیادہ تر اسرائیلی شدت سے خواہش رکھتے ہیں، اسرائیلی شہریوں نے دو المناک سال گزارے ہیں، جس کے دوران سائرن کی آواز اُن کی روحوں تک کو مجروح کردیتی اورخوفزدہ اسرائیلی شہری بنکرز میں چھپ جاتے، پیر 13 اکتوبر کے روز آخری 20 زندہ یرغمالیوں کو اسرائیل واپس لایا گیا، اس کے جواب میں اسرائیل نے تقریباً دو ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا، جن میں سے بیشتر کو غزہ یا پڑوسی ممالک سے گرفتار کیا گیا تھا، ایک بین الاقوامی ٹیم ان اسرائیلی یرغمالیوں کی باقیات کی تلاش کرے گی جو تاحال واپس نہیں آئے، جن کے بارے میں یقین ہے کہ وہ غزہ کی تباہ شدہ بستیوں کے ملبے تلے دفن ہیں۔
صدر ٹرمپ کا 20 نکاتی غزہ امن روڈ میپ ایک جامع جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیلی افواج کی متفقہ حدود تک واپسی سے شروع ہوتا ہے، اگرچہ یہ فلسطینی ریاست کے باضابطہ تسلیم کرنے سے کم ہے لیکن جیسا کہ خود ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا یہ ایک نئے مشرقِ وسطیٰ کی صبح ہو سکتی ہے، صدر ٹرمپ کے خطاب کے دوران کنیسٹ کے دو اراکین ایمن اوہد اور اوفر کیسِف نے فلسطین تسلیم کرو کے نعرے لگائے اور ٹرمپ کو دہشت گردکہا تاہم سکیورٹی کے ذمہ دار اہلکاروں نے انہیں اجلاس سے باہر نکال دیا، یہ لمحہ ٹرمپ کیلئے ناگوار تھا کیونکہ وہ اس وقت وٹکوف کی تعریف کررہے تھے، اسٹیو وٹکوف نے اپنی سفارتکاری کی پوری اہلیت کو بروکار لاتے ہوئے مسلم اور عرب حکومتوں کو اس بات پر رضامند کیا تھا کہ وہ اس موقع پر آزاد فلسطینی ریاست کے مطالبے پر زیادہ زور نہ لگائیں۔
امریکی صدر ٹرمپ خودستائشی اور خوشامد کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک پوشیدہ نفسیاتی بیماری ہے، اس کے باوجود امریکی ڈاکٹرز نے انہیں پاگل یا نیم پاگل قرار دینے سے انکار کردیا، جس کے بعد امریکی صدر نے بخوشی اعلان کیا کہ وہ پاگل نہیں ہیں، ٹرمپ نے اپنے خطاب میں صدر اوبامہ اور صدر بائیڈن کو اس بابت تنقید کا نشانہ بنایا کہ اُنھوں نے اسرائیل کوخطرناک اسلحہ دینے سے انکار کردیا تھا، صدر ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے غزہ جنگ کیلئے جو بھی اسلحہ مانگا وہ اُنھوں(ٹرمپ) نے دیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نےمزید کہا ہم دنیا کے بہترین ہتھیار بناتے ہیں، ہم نے بہت سے ہتھیار اسرائیل کو دیئے ہیں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نیتن یاہو نے مجھے کئی بار کال کی اورکہاکیا تم یہ ہتھیار دے سکتے ہو؟ وہ ہتھیار دے سکتے ہو؟ بعض اوقات نیتن یاہو نے وہ ہتھیار مانگے جن کے بارے میں ہمیں علم ہی نہیں تھا، ٹرمپ یہ بات کہتے ہوئے بھول گئے کہ اس اعتراف سے خود امریکی سکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نقص پر سوال کھڑا ہورہا ہے یعنی اسرائیل کی انٹیلی جنس ادارے وہ جانتے ہیں جو خود امریکیوں کے علم میں نہیں ہے۔
صدرڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی کینسٹ میں خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کوخطرناک اسلحہ فراہم کرنے کا اعتراف کیا ہے، جوبادی النظر میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں امریکہ کےشریک ہونے کا واضح اعلان تھا،امکان رکھنا چاہیے کہ عالمی فوجداری عدالت میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ لڑنے والے قانونی ماہرین ٹرمپ کے خطاب کے اس حصّے کو بنیاد پر انہیں شریک ملزم کے طور پر نامزد کریں گے۔
ٹرمپ مشرقِ وسطیٰ سے کچھ قابلِ قدر اورتسلی بخش اعزاز لے کر روانہ ہوئے ہیں جو بظاہران کی امن کیلئے کی گئی محنت اور قربانیوں کی قدردانی تھیں مگر ٹرمپ کی خوشامدی طلب کو پاکستان کے وزیراعظم نے پورا کیا، جب اُنھوں نے صدر ٹرمپ کو 2026ء کیلئے دوبارہ امن کے نوبل انعام کیلئے نامزد کرنے کا اعلان کیا، جسے سن کر دنیا کی غالب اکثریت ضرور حیران ہوئی ہوگی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اسرائیلی صدر آئزک ہرتزوگ کی طرف سے اسرائیلی صدارتی میڈل آف آنر دیا گیا ،منگل کو مصری صدر عبد الفتاح السیسی نے امن کی کوششوں کی حمایت کرنے پر صدر ٹرمپ کو بطور اعتراف نائل کالر عطا کیا حالانکہ وہ ایک روز قبل ہی فلسطینیوں کی نسل کشی کیلئے اسرائیل کو خطرناک ہتھیار فراہم کرنے کا اعتراف کرچکے تھے۔
اسرائیل اور مصر کی طرف سے دیئے گئے ریاستی اعزازات اور پاکستان کی جانب سےآئندہ سال نوبل انعام کیلئے نامزدگی صدر ٹرمپ کے کلیجے میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرسکی ہو ورنہ وہ یہ بھی کرسکتے تھے کہ اپنے نئے نام سے منسوب محکمۂ جنگ کو بلا کر نئی جنگوں کی تیاری کا حکم دیتے، یہ آدمی تاریخ میں اپنا نام درج کروانے کیلئے کسی حد کو عبور کرسکتا ہے۔
جمعرات, اکتوبر 23, 2025
رجحان ساز
- ہینلے اینڈ پارٹنرز کا گلوبل انڈیکس میں پاکستان عالمی سرمایہ کاری کیلئے رسکی ملکوں میں شامل کردیا گیا !
- پاکستان میں رواں سال ابتک سائبر کرائم 35 فیصد اضافہ ہوا، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی بنیادی وجہ ہے
- بلوچستان میں بدامنی ضلع نوشکی میں مسلح علیحدگی پسندوں کی دہشت گردی 2 پولیس اہلکار جاں بحق
- شہباز شریف نے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی عمران خان سے ملاقات کیلئے انتظامات کرنیکی ہدایت !
- پاکستان میں انٹرنیٹ سروس متاثر وفاقی حکومت نے ایک بار پھر سمندر میں کیبل خرابی سے جوڑ دیا
- فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں لوور کے عجائب گھر سے چور 7 منٹ میں انمول زیورات لے اڑے
- ہندوستان میں بغیر جوڑے کی شادیاں، موسیقی، رقص، تفریح سے بھرپور رنگین رات اور کہانی ختم
- واٹس ایپ صارفین کی جاسوسی، اسرائیل پر امریکی عدالت کی نوازش جرمانہ کم کرکے 40 لاکھ کردیا