آڈیو لیکس کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس بابر ستار کی جانب سے اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے عزم کے بعد پاکستان کے اہم اور مقتدر وفاقی ادارے اس کیس کی سماعت سے جسٹس بابر ستار کو الگ کرنے کیلئے کوششیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں، انٹیلی جنس بیورو، ایف آئی اے، پی ٹی اے اور پیمرا نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں متفرق درخواست میں کہا گیا کہ اختلافی فیصلے سے بچنے کے لئے آڈیو لیکس کی درخواستوں پر سماعت کرنے والے جسٹس بابر ستار کیس سے الگ ہو جائیں اور اس مقدمے کی سماعت وہی بینچ آگے بڑھائے جو پہلے اسی نوعیت کی دوسری درخواست پر 2021 میں فیصلہ کرچکا ہے، واضح رہے اس درخواست میں فوج کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی فریق نہیں بنی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آڈیو ریکارڈنگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے اس سے قبل جسٹس محسن اختر کیانی 2021 میں اسی نوعیت کے ایک دوسرے کیس کا فیصلہ کر چکے ہیں، اس لئے اب اختلافی فیصلے سے بچنے کے لئے اور انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے بشری بی بی اور نجم الثاقب کی درخواستوں پر سماعت کرنے والے جسٹس بابر ستار اس مقدمے سے الگ ہو جائیں۔
عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ نہ صرف جسٹس بابر ستار اس مقدمے کو سننے سے انکار کردیں بلکہ اسی نوعیت کی درخواست پر فیصلہ کرنے والا دوسرا بینچ اس مقدمے کی کارروائی بھی آگے بڑھائے، درخواست میں بتایا گیا ہے کہ چیئرمین پیمرا متعدد بار عدالت میں پیش ہوچکے ہیں مگر تاحال مقدمہ زیر سماعت ہے، بشری بی بی نے اپنے وکیل سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ کیساتھ لیک ہونے والی آڈیو کو چیلنج کررکھا ہے جبکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحب زادے نجم الثاقب نے آڈیو لیک پر بننے والی پارلیمانی کمیٹی میں طلبی کا نوٹیفکیشن چیلنج کررکھا ہے، جسٹس بابر ستار دونوں درخواستوں کو یکجا کرکے سماعت کررہے ہیں، آڈیو لیک کیس 29 اپریل کو سماعت کے لئے مقرر ہے، پاکستان میں عموماً قومی ادارے ججز پر مختلف انداز سے دباؤ ڈالتے رہے ہیں اور ایک درخواست جس میں خود جسٹس بابر ستار فریق ہیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور انٹیلی جنس اداروں کی پاکستان کے نظام انصاف میں غیرقانونی مداخلت کے معاملے پر ججز کے خطوط پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس پر ممکنہ طور پر فل کورٹ کی تشکیل ہوسکتی ہے۔