تحریر: محمد رضا سید
لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نےاتوار کی صبح اسرائیل کے زیر قبضہ شہروں پر حملہ کرکے تل ابیب کی فوجی طاقت کو مفلوج کردیا، جس کے بعد وزیراعظم بنجمن نتین یاہو نے اسرائیلی شہریوں سے خطاب کے دوران پہلی بار تسلیم کیا کہ حزب اللہ (غاصب) کو ایک منظم اور نظریاتی طاقت کیساتھ مختلف محاذوں پر شدید نقصان پہنچا چکی ہے، نیتن یاہو نے غاصب اسرائیل کو پہنچائے گئے نقصانات کی تفصیل تو نہیں بتائی لیکن یہ واضح ہے کہ حزب اللہ اور اور دیگر مزاحمتی محاذ کی قوتیں، اسرائیلی فوج کو صرف میدان جنگ میں نہیں بلکہ معاشی اور بینکنگ کے شعبوں میں کو 7 اکتوبر کے بعد سے مسلسل نشانہ بناکر غاصب اسرائیلی حکومت کی کمر توڑ رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیلی کی نابودی کی ٹائم لائن کم کردی ہے اور اسی بات کو حزب اللہ کے قائد سید حسن نصراللہ نے بھی سیکنڈ کیا ہے، حزب اللہ نے اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی شہروں کو رہائش کیلئے نوگو ایریاز میں تبدیل کردیا ہے، جسکی وجہ سےکم و بیش 60 ہزار یہودی آبادکار غاصب اسرائیلی حکومت پر مالی بننے ہوئے ہیں اور دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت کی خواہش ہے کہ حزب اللہ سے غزہ جنگ بندی کے بغیر یہودی آباد کاروں کو شمال میں دوبارہ بسانے کیلئے رعایت حاصل کی جائے جس کا امکان ممکن ہی نہیں ہے، لبنان نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل اپنے شمال میں فوجی ہوئی اڈوں کو ختم کرئے جو لبنان کی سلامتی اور خودمختاری کیلئے بڑا چیلنج ہے۔
اتوار کے روز حزب اللہ نے فادی-1 اور فادی-2 میزائلوں سےاسرائیلی کی درجنوں سرکاری اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ، اِن حملوں کا ایک اہم ہدف مقبوضہ شمالی حصے میں واقع رامات ڈیوڈ نامی اسرائیلی فضائی اڈہ تھا، جس کو شدید نقصان پہنچا ہے، جو حیفہ شہر سے محض 20 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے، تحریک نے وضاحت کی کہ فادی ون 220 ملی میٹر قطر والا میزائل ہے، جس کی حد 80 کلومیٹر ہے، جبکہ فادی ٹو 303 ملی میٹر قطر والا میزائل ہے جو 105 کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے، اسرائیلی فضائی اڈے پر 20 راکٹ بھی داغے گئے، جہاں جنگی طیارے، ہیلی کاپٹر گن شپ، اور دیگر فوجی سازوسامان سمیت جارحانہ الیکٹرانک جنگی نظام موجود ہیں، حزب اللہ نے 7 اکتوبر کے بعد سے غاصب اسرائیلی فوج پر متعدد ایسے حملے کیے ہیں، مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے مطابق یہ کارروائیاں اسرائیلی حکومت کے خلاف جوابی اقدامات کے ساتھ ساتھ غزہ کے جنگ زدہ عوام کی حمایت کے اظہار کے طور پر کی جا رہی ہیں، حزب اللہ کے ملٹری میڈیا نے بتایا کہ اتوار کو کئے گئے آپریشن کا مقصد اسرائیل کے بار بار لبنان پر ہونے والے ان حملوں کا جواب دینا تھا ، جس میں لبنان میں دہشت گرد حملےاور فضائی کارروائی میں حزب اللہ کے کمانڈروں کو شہید کیا گیا ، اس سے قبل لبنانی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے اسرائیل کو واکی ٹاکی اور پیجر حملوں کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ غاصب اسرائیل نےہمارے سکیورٹی نظام میں نقب لگائی گئی ہے، اسرائیل نے الیکٹرانک ڈیوائس کے ذریعے دھماکے کر کے دہشت گردی کی بدترین مثال قائم کی ہے، حزب اللہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت ختم ہونے تک حزب اللہ اور لبنانی عوام پیچھے نہیں ہٹیں گے، اُنھوں نے واضح کیا کہ اسرائیلی حملوں کا جواب اس انداز سے دیا جاتا رہے گا اور اسکی شدت میں بتدریج اضافہ بھی ہوگا،جو شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا، انھوں نے اسرائیلی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں جگہ، وقت، مقام، تفصیلات کے بارے میں بات نہیں کروں گا لیکن آپ کو پتہ چل جائے گا کہ مزاحمتی تحریک کتنی طاقت رکھتی ہے، حزب اللہ نیتن یاہو اور اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ سمیت تمام دشمنوں کو پیغام دیتے ہیں کہ لبنان اپنے محاذ سے اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹے گا جب تک غزہ میں جارحیت رک نہ جائے، سید حسن نصراللہ جس وقت یہ باتیں کررہے تھے تو اُن کے چہرے پر کمال اطمینان واضح نظر آرہا تھا، وہ اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف مؤثر جواب دینے کی اپنی صلاحیتوں پر مطمئن تھے ، جسکا اظہار اتوار کی صبح اسرائیلیوں نے دیکھ لیا ، جس کا اظہار اُنھوں نے چند گھنٹوں قبل کیا تھا۔
تل ابیب نے دہائیوں سے مقبوضہ شمالی علاقوں میں منظم منصوبے کے تحت یہودی آباد کاری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، اِن علاقوں میں یہودی آبادکاری خود لبنان کی سلامتی کیلئے ایک مستقل خطرہ ہے، جسکی کومعیشت پہلے ہی امریکہ اور اسرائیل نے سعودی عرب کیساتھ ملکر برباد کردیا ہے، یمن اور عراق کی مزاحمتی قوتوں کی طرف سے جو رسپانس آرہا ہے اُس کو دیکھتے ہوئے اسرائیلی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ گھبراہٹ کا شکار ہے کہ اگر اسلامی مزاحمتی قوتوں نے اجتماعی طور پر تل ابیب کے زیر کنٹرول شمالی عرب علاقوں میں زمینی آپریشن شروع کردیا تو تل ابیب کا گولان پہاڑی سلسلے کو شام سے محفوظ رکھنا مشکل ہوجائے گا۔